کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے منعقدہ پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کی دوسرے روز چار کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ ثروت حسین کی لکھی گئی کتاب ”فاتح کا گیت“، صابر ظفر کی کتاب ”ایک لہر کی چھاگل“، طاہر کاظمی کتاب ”زندگی سے ڈرتے ہو“ اور اصغر اندیم سید کی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں “کی تقریب رونمائی کی نظامت کے فرائض سلمان ثروت نے سرانجام دےئے۔ ان کتابوں پر افضال احمد سید، ضیاءالحسن، مہناز رحمان اور حارث خلیق نے اپنے مقالے پیش کئے۔ افضال احمد سید نے اپنے مقالے میں کہا کہ ثروت نے اپنی شاعری میں فطرت کی عکاسی کی ہے ان کی نظموں میں فکری وسعت بھی اور حالات کی عکاسی بھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد عوام بہت دکھی تھی اور ملکی حالات بہت خراب تھے ایسے حالات میں مشرق وسطی نے ہمارے لوگوں کو بڑا سہارا دیا۔ ضیاءالحسن نے کہا کہ ستر کی دہائی میں شعراءنے استعاری طور پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی ان میں صابر ظفر ایک بڑا نام ہیں۔ انہوں نے شاعری کے 47 مجموعے لکھے ہیں اور آج تک بھی ان کے شعر میں ظلم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ فیمنسٹ لکھاری ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے اپنی کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں فیمنزم کو مغرب زدہ عورتوں کا ٹولہ تصور کیا جاتا ہے۔ عجیب تصور ہے کہ مرد عورتوں کا محافظ ہے۔ ایک مرد دوسرے مرد سے اپنی عورت کی حفاظت کرتا ہے یہ سارے مرد عورتوں کی حفاظت کے بجائے خود کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دیہات میں عورتوں کے ساتھ بہت بڑی نا انصافیاں ہورہی ہیں لیکن عورتوں کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ایسی عورتوں پر بات کرنے کو فیمنزم کہا جاتا ہے اور مجھے فیمنسٹ کہلانے پر فخر ہے۔ مہناز رحمان نے کہا کہ جنس کی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا جائے اور طاہرہ کاظمی کو یونیورسٹیوں میں بلاکر ان سے لیکچر کروائے جائیں۔ حارث خلیق نے اصغر ندیم سید کی کتاب پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں سیاسی تاریخ کو مسخ کیا جائے، یادداشتوں کو مٹانا ریاستی مشغلہ ہو، جہاں پر سماجی تاریخ کو مرتب کرنے کا بہت بڑا خلا ہو وہاں پر خاکہ لکھنا ایک مستند کام ہے۔ اصغر ندیم سید نے ہندو خاکے لکھے ہیں وہ کمال ہیں۔