کراچی(نمائندہ خصوصی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز چھٹے سیشن ”اکیسویں صدی میں پشتو زبان و ادب“ کا انعقاد جون ایلیا لان میں کیا گیا۔کانفرنس میں اباسین یوسفزئی ،ماہم خٹک، قیصر آفریدی اور عرفان اللہ نے گفتگو کی۔ اجلاس میں نظامت کے فرائض فوزیہ خان نے انجام دیے۔ ماہم خٹک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اکیسویں صدی اور ادب کا احاطہ کریںگے جو اثر ہماری زندگی پر پڑتا ہے وہی ادب پر بھی رہتا ہے کیونکہ ادب زندگی ہے اور زندگی ادب ہے۔ ہماری کئی اصطلاحات سامنے آئی ہیں جس میں دیگر زبانیں بھی موجود ہیں، گزشتہ بیس سال میں جو فنکاروں پر گزرا ہے وہ ہما رے سامنے ہے۔ پشتو میں فنکاروں پر بھی ناول لکھے گئے، قیصر آفریدی نے کہا کہ اکیسویں صدی میں جو ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی تعدادہے یہ ایسے ہی نہیں ہے، اس میں ادب کی قوت نظر آتی ہے۔ پشتو ادب جدید ادب کا حصہ ہے، اس میں بہت سارے مسائل ہیں جن کا ہم ابھی تک سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک نقطئہ نظر ہے جو آگے پھیلتا جا رہا ہے اور ہمیں ادبی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ عرفان اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا ادیب معاشرے کے مسائلوں سے مقابلہ کرتا ہے، ادب کا مطالعہ انسانی شعور سے ہوتا ہے، ہمیں یہ فائدہ ہے کہ ہم زبان کے معاملے میں بڑے امیر ہیں، ادب کے حوالے سے بہت اچھا کام ہو رہا ہے، اباسین یوسف زئی نے کہا کہ جس شاعر میں قوم اور اقامیت کا موضوع نہ ہو میں سمجھتا ہوں وہ قوم کا نہیں کیونکہ شاعر اپنی قوم اور اپنی زبان کو لے کر چلتا ہے ،آخر میں پیر محمد کارواں کی نظم بھی پڑھ کر سنائی۔