کراچی ( میاں طارق جاوید سے) اردو زبان کا آغاز ہی روحانی شاعری سے ہوا، حمد، نعت، مرثیہ شاعری کی صفت ہیں، رہیں گی لیکن یہ شاعری ادب کی جمالیات کے ساتھ لکھنا بہت ضروری ہے اور نعت صرف اردو زبان میں ہی قائم رہ سکی جبکہ فارسی اور عربی میں بھی نعتیں لکھی گئی تھیں ۔ حضرت ابو طالب نے پہلی نعت لکھی تھی اور حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نعتیں سنی تھیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و دانشور افتخار عارف نے آرٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز کے تیسرے سیشن ”اکیسویں صدی میں تقدیسی ادب“ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیشن کی صدارت میں ڈاکٹر عالیہ امام بھی شریک تھیں۔ دیگر مقررین میں رضوان حسین، محمد طاہر قریشی، عقیل عباس جعفری، فراست رضوی اور ڈاکٹر عزیز احسن شامل تھے جبکہ سیشن کے میزبانی کے فرائض عزیز الدین خاکی نے سرانجام دےئے۔ افتخار عارف نے مزید کہا کہ بیسوی صدی میں حمدیہ، نعتیہ اور مرثیہ شاعری کے ہزاروں شاعر پیدا ہوئے اور انہوں نے مغرب کی اس تنقید کو ختم کردیا کہ مذہبی شاعری ، شاعری نہیں ہے۔ شاعری کو پہلے تو ادب کے معیار پر اترنا بہت ضروری ہے جو شعر لکھے گا اور جمالیات پر پورا نہیں اترے گا میں تو اس کو شاعر نہیں مانتا۔ انہوں نے کہا کہ صرف پچاس برسوں میں ہزاروں مرثےے لکھے گئے ہیں وہ کون سی صنف ہے جس میں اتنی تخلیق کاری کی گئی ہو اس لئے حمد، نعت اور مرثیہ کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے رضوان حسین نے کہا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی معاملات میں مسلمانوں کی بہت رہنمائی کی ہے، حلال رزق پر زور دیا گیا تھا، قرض کو ناجائز قرار دیا تھا، زکوٰة کو انسانی خدمت کا نقطہ آغاز قرار دیا تھا۔ اسلام کی فلاحی ریاست کا وہ اصول جن سے آج مغرب جگمگارہی ہے ہمارے پاس یہ اصول 1400 سال قبل موجود تھا اسلام کا یہ اصول ریاست مدینہ میں نافذ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ سوال تو اٹھا کہ بینکاری نظام جائز ہے یا نہیں ہے لیکن پاکستان میں فلاحی نظام قائم نہیں ہوسکا۔ محمد طاہر قریشی نے کہا کہ اردو زبان کی شاعری کو نعتیہ سرمائے پر فخر کرنا چاہئے۔ مسدس کو قصیدے کا نام دےکر اس کو نئی جہت بخشی گئی، قصیدہ غزل سے ملتا جلتا ہے لیکن قصیدہ نے اردو شاعری میں اپنی اہمیت کو برقرار رکھا۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے کہا ہے کہ اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی ہے اب ہزاروں مرثےے ای ۔ مرثیہ کے نام سے تیار کردہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اسی ویب سائٹ میں دبیر کے 457 مرثےے موجود ہیںجو میگزین میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو غزل اور واقعہ کربلا کا گہرا تعلق ہے، ہندوستان میں واقعہ کربلا پر شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ نصیر امروہوی کے تعلق سے بہت بڑا کام ہوا ہے، بہت سارے مرثیہ نگاروں نے مرثےے پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور اکیسویں صدی کے بائیس برسوں میں مرثیے پر بہت کام ہوا ہے۔ فراست رضوی نے کہا ہے کہ افتخار عارف نے کربلا کے بارے میں جو لکھا ہے اور علامات کربلا کو مکمل طور پر اپنی شاعری میں سمویا ہوا ہے اس بات کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ نیئر جلال پوری جو لکھنو¿ یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں افتخار عارف پر پورا ایک باب لکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پندرھویں صدی میں جب سے اردو شاعری کا آغاز ہوا ہے تب سے حمدیہ شاعری ملتی ہے اور اردو ادب میں حمدیہ شاعری کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے کہا ہے کہ ادب زبان اور مکان سے ماورا ہوتا ہے، اکیسویں صدی میں جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے اس پر بیسوی صدی کا اثر ہوگا لیکن اکیسویں صدی میں بھی بڑے پیمانے پر نعتیہ اور حمدیہ شاعری تخلیق کی جارہی ہے اور نعتیہ شاعری میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم مرکزیہ تھے۔ اس سیشن میں عزیز الدین خاکی کے نعتیہ مجموعہ ”آیات نعت“ کی رونمائی کی گئی۔