کراچی (میاں مناس طارق سے ) معروف ناول نگار زاہدہ حنا نے کہا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں عالمی حالات و واقعات اس تیزی سے رونما ہوئے کہ ان سے اردو افسانے اور ناول کا متاثر ہونا لازمی امر تھا۔ اس کے باوجود موجودہ دور کے فکشن نگاروں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور شاہکار ادب پیش کیا۔ بیسوی صدی کی طرح اکیسویں صدی میں بھی اس حوالے سے بہت بڑے امکانات ہمارے سامنے ہیں اور امید ہے کہ اس صدی میں بھی اردو افسانہ اور ناول بہت پر پھیلائے گا۔ ترقی پسند تحریک کی طرح گزشتہ بیس بائیس سال میں بھی بے حد عمدہ اور متاثرکن کہانیاں لکھی گئیں جس میں ہماری زندگی گرد و پیش اور گھریلو معاملات کو موضوع بنایا گیا۔ یہ بات انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں پندرھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ”اکیسویں صدی میں اردو فکشن“ کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر اصغر ندیم سید، فرحت پروین، اختر رضا سلیمی، حمید شاہد، اخلاق احمد اور محمد حفیظ خان نے بھی اظہار خیال کیا اور اکیسویں صدی میں اردو فکشن کی صورتحال پر اظہار خیال کیا۔ اصغر ندیم سید نے کہا کہ کہانی انسان کی سب سے قدیم ساتھی ہے جس نے ہماری اجتماعی یادداشت کا بوجھ اٹھا رکھا ہے یہ ایک طلسم کدہ ہے جو وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے، انسانی تاریخ جو سچ نہ لکھ سکی وہ تمام سچائیاں ناولوں میں آچکی ہیں، ناول کے اندر جھانکنے کے لئے قاری کا اجتماعی شعور بہت ضروری ہے۔ ناول کی جڑیں ماضی میں اور شاخیں مستقبل میں ہوتی ہیں، یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناول کے لئے کسی ایک موضوع کی حد بندی ممکن نہیں انسانی آشوب تاریخ کا جبر اور جدوجہد کا سفر ناولوں میں دیکھا جاسکتا ہے اس حوالے سے موضوعات کی تفہیم مشکل ہے اصل چیز لکھنے والا ہے جس کے ہاں تین چیزوں موضوع، انداز اور تیکنک کی تخلیقی وحدت پائی جاتی ہے۔ ممتاز تنقید نگار حمید شاہد نے کہا کہ گزشتہ 22 برس میں دنیا ویسی نہیں رہی جیسے اس سے قبل ہوا کرتی تھی اردو افسانے نے اپنی جون بدلی تو قاری دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہانی اپنے پڑھنے والوں سے مکالمہ کرنے لگی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں 9/11 کا دلخراش واقعہ پیش آیا جس کے بعد خودکش دھماکوں اور مذہبی انتہا پسندی نے سماجی تفریق پیدا کی۔ دہشت کے چلن میں اردو کہانی مضمون کے ساتھ ہوگئی لکھنے والوںنے کہانی کے بھید کا سرا پکڑنے کے لئے نئے تکنیکی تجربات کا سہارا لیا اور یوں متن میں نئے چراغ روشن ہوئے اچھی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہمارا افسانہ نگار ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا رہا بلکہ اس نے خود سے ہونے والے تقاضوں کو پورا کیا نیا وقت نئے راستے سجھاتا ہے کہانی زندگی کی جستجو کا نام ہے۔ نئے زمانے میں کہانی کو اس چراغ کی مانند ہوگا جو ہر حال میں جلتا رہے۔ اخلاق احمد نے کہا کہ 8 ارب کی نفوس کی دنیا میں آدمی سے آدمی کی دوری کا منظر پہلی بار کورورنا وبا کے دوران دیکھنے میں آیا اور ہر انسان کی ایک علیحدہ ورچوئل دنیا وجود میں آئی باہمی تعلق ختم ہوا اور اس کا احساس تک نہ رہا یہ صورتحال افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنی، عدم برداشت کا رویہ ہم سب کے مزاج میں تبدیلی لارہا ہے اور یہی فکشن نگاروں کی توجہ کا مرکز ہے۔ محمد حفیظ خان نے کہا کہ نئے موضوعات فکشن نگاروں کے ذہن سے کھرچے نہیں جاسکتے بلکہ یہ انہیں سوچ کے نئے زاوےئے عطا کرتے ہیں اور کم و بیش یہی امتیاز گزشتہ بائیس برس میں ہمارے افسانے کا جھومر رہے ہیں۔ فرحت پروین نے داستان سے افسانہ تک اکیسویں صدی میں اردو کے موضوع پر کہا کہ داستان سے قصہ گوئی اور پھر افسانے تک اردو فکشن میں مسلسل تبدیلی اور اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اختر رضا سلیمی نے اردو ناول کے اسلوب اور تخلیق کے تجربات پر کہا کہ گزشتہ بیس برس کے دوران جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ اس سے پہلے کے زمانے میں نہیں دیکھی گئیں۔