(تحریر:امتیاز متین)
دفاعی نمائش آئیڈیاز اپنے آغاز سے ہی اہل کراچی کے لیے فخر کا باعث رہی ہے۔ یہ نمائش صرف انہی لوگوں کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے جن کے پاس اس کا اجازت نامہ ہو۔ یہ نمائش چار سال کے وقفے کے بعد آئیڈیاز 2022ء ’’آرمز فور پیس‘‘ کے عنوان سے منعقد کی گئی تھی۔ جس میں دفاعی ساز و سامان بنانے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے نمائندوں اور فوجی وفود کے علاوہ پاکستانی افواج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس نمائش کا بنیادی مقصد پاکستان میںدفاعی صنعت کا فروغ اور دفاعی ساز و سامان کی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔یہ نمائش پاکستانی اور دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے نمائندوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرنے اور اپنی پروڈکٹ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے فوجی افسران اور کمپنیوں کے ایگزیکٹوز سے متعارف کرانے کا بہترین پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
دفاعی نمائش کے انعقاد سے قبل ہی اس کی سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ نمائش کے افتتاحی اجلاس سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کیا تھا۔ اس کے بعد ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تعاون سے منعقدہ سیمینار کے مہمان خصوصی اور سیکریٹری دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ہمایوں عزیز اور دیگر مندوبین نے خطاب کیا۔ دوسرے روز کے سیمینار کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار محمد اسرار ترین تھے۔ اسی روز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی نمائش میں شرکت کی۔ جب ہم سیکورٹی کے بیرونی حصار سے گزر کر اندر داخل ہوئے تو باوردی پاکستانی اور غیر ملکی فوجی افسران اور نمائش میں شریک کمپنیوں کے نمائندے نظر آئے۔ ہم جیسے عام شہری الخالد ٹینک اور JF-17 تھنڈر طیارے جیسے بڑے ہتھیاروں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں کھنچوا رہے تھے یا ہال کے اندر مشین گنز اور رائفلز کے علاوہ ہلکی پھلکی پستولیں ہاتھ میں لر کر خوش ہو رہے تھے اور کچھ تو بلا وجہ ہی قیمتیں بھی پوچھ رہے تھے، جیسے ابھی جیب میں ڈال کر لے جائیں گے۔ نمائش کے ماحول سے یہ بالکل نہیں لگتا تھا کہ قومی سیاسی افق پر کیا ہلچل مچی ہوئی ہے اور الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا پر ہونے والے تبصروں نے عوام کو کس قسم کی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر چہرہ پر مسرت تھا اور شاید یہ دیکھ کر خوش تھا کہ پاکستان دفاعی ساز سامان بنانے میں مہارت کی جانب قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔
دفاعی نمائش کی بنیادی کلید کسی بھی قسم کی انجینئرنگ ہے۔ پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل اور اعزاز کی بات ہے لیکن پاکستان کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں انجینئرز بھی مارکیٹنگ کی نوکریاں کر رہے ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی خواہش رکھنے والوں کو بھی اپنی تیار کردہ مصنوعات کے لیے مارکیںنگ بھی خود ہی کرنا پڑتی ہے۔ نمائش میں زیادہ تر اسٹال پاکستانی کمپنیوں کے تھے تاہم ترکیہ کی کمپنیوں کے اسٹال دو ہالز میں لگائے گئے تھے جبکہ چین کی دفاعی مصنوعات ایک ہال میں تھیں۔ داخلی دروازے پر واہ ہوی انڈزسٹریز کے ٹینک، بکتر بند بند گاڑیاں اوربلیٹ پروف بھاری گاڑیاں کھڑی تھیں۔
155 ملی میٹر سیلف پروپیلڈ آرٹلری گن
دوسری جانب طیارہ شکن نظام، ریڈارز اور جے ایف 17 تھنڈر طیارے کے پیچھے ایک تربیتی طیارہ کھڑا کیا گیا تھا اس کے برابر میں الخالدٹینک، 155mm سیلف پروپیلڈ آرٹیلر گن اور چند بکتر بند گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اس گن کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آفیسر سے ہم نے کہا کہ ہمیں اپنی گن کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے توپ کی خصوصیات کے بارے میں آگاہ کرنے لگے۔ان کی بات ختم ہوئی تو کہا کہ اب جبکہ ڈرونز کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے تو آپ اپنے آپ کو کیسے بچائیں گے؟ یوکرین اور اس سے پہلے آذربائیجان ۔ آرمینیا کی جنگ میں تو ٹینک بہت بڑی تعداد میں تباہ ہوئے ہیں۔ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ ٹینک آگے ہوتے ہیں اور ہم کافی پیچھے سے ٹینکوں کو سپورٹ دیتے ہیں ۔ ان کے آگے بڑھنے سے پہلے دشمن کی تنصیبات تباہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں فوراً اپنی جگہ تبدیل کرنا پڑتی ہے کیونکہ فائر ہوتے ہی دشمن کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں سے فائر ہوا ہے اس لیے وہ فوراً ہی میزائل توپ سے ہم پر فائر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ساتھ اینٹی ایئر کرافٹ گنز بھی ہوتی ہیں اور ہم پورے گروپ میں کام کرتے ہیں۔ آفیسر کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے جواب سے ہمیں مطمئن نہیں کر پایا تو کہا کہ خطرات کے باوجود ہم اس کے ساتھ موجود رہیں گے ۔ کیونکہ ہمارا نکتہ یہ تھا کہ خود کار توپوںاور ٹینکوں پرکامی کازی ڈرونز کو نشانہ بنانے والی خود کار گن ٹرٹ یا چھوٹا میزائل نظام نصب ہونا چاہیے ۔
اسی جگہ ایک یورپی کمپنی روبس کا خیمہ تھا۔ شاید ہم بھی وہاں سے دوسرے عام لوگوں کی طرح گزر جاتے لیکن کمنپی کے اسکاٹش نمائندے مسٹر میتھیو نے بہت محبت سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا اور خیمے کے اندر لے گئے اور خیمے کا بک لیٹ ہاتھ میں تھماتے ہوئے بتایا کہ یہ خیمہ ہر طرح کے موسم اور علاقے کے لیے موزوں ہے۔ جسے دس منٹ میں لگایا جا سکتا ہے۔
خیمہ جس ٹرالر پر رکھا ہوتا ہے اسی میں ایک ہیڈرالک سسٹم بھی لگا ہے جس کی مدد سے دس منٹ میں نصب کرکے ٹرالر باہر نکالا جا سکتا ہے جس میں ایک جنریٹر بھی ہے جس سے اس میں بجلی کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے خیمے میں کم از کم بارہ افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ سب سے بڑے خیمے میں 36 افراد تک ٹھہر سکتے ہیں۔ جس کا انحصار بیڈ لگانے کے انداز پر ہے۔ اس خیمے میں ہسپتال بھی بنایا جا سکتا ہے اور اسے کمانڈ پوسٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان پویلین میں داخل ہوتے ہی ’’حیدر‘‘ نامی ایک ٹینک کھڑا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک بکتر بند ٹرک ’’حمزہ‘‘ کھڑا کیا گیا تھا جو دیکھنے سے ہی متاثر کن لگ رہا تھا۔ کمپنی کے نمائندے نے فخر سے بتایا کہ اس ٹرک کا 80 حصہ پاکستان میں ہی بنایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ باقی ماندہ 20 فیصد حصے میں ٹرک کا انجن، چیسی اور ٹرانسمیشن سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔اس اعتراف سے یہ واضح ہوا کہ ہم ابھی صرف ٹرک کی بکتر بندباڈی بنانے کے قابل ہوئے ہیں اور نسبتاً پیچیدہ مشینیں بنانے سے ابھی کوسوں دور ہیں۔اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ مینوفیکچرنگ چین میں ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چین کی لیبر سستی ہے اس لیے وہاں مینوفیکچرنگ زیادہ ہوتی ہے ۔لیکن یہ تاثر غلط ہے کیونکہ چین کی لیبر تو برسوں پہلے ہی مہنگی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ سے زیادہ چین میں مینوفیکچرنگ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی افرادی قوت مختلف قسم کی اعلیٰ مصنوعات بنانے کی مہارت حاصل کر چکی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افراد کو بہتر روزگار کے لیے بیرون ملک جانا پڑتا ہے یا پھر بے روزگاری کے دن دیکھنا پڑتے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی تجارت میں دفاعی صنعت کا مجموعی حصہ کم ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک انتہائی حساس ، منافع بخش اور تیزی سے ترقی پاتی ہوئی صنعت ہے۔ تمام عالمی اشاریے بتا رہے ہیں کہ دفاعی برآمدات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان نے 3.8 ملین ڈالر کے دفاعی ساز و سامان برآمد کیا تھا ۔Sipri کے مطابق 2020ء میں دفاعی ساز و سامان کی عالمی تجارت کا ہجم کم از کم 112 ارب ڈالر تھا جو عالمی تجارت کے مجموعی ہجم کے 0.5 فیصد کے برابر تھا۔دنیا بھر میں ہتھیاروں کی برآمدات کا 77 فیصدحصہ امریکہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کے 163 ممالک دفاعی مصنوعات درآمد کرتے ہیں جو اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی تنازع میں ملوث ہیں۔ سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سر فہرست بھارت، سعودی عرب، مصر، آسٹریلیا اور چین ہیں جو دنیا کی 38 فیصد دفاعی مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان، متحدہ عرب امارات ، جنوبی کوریا اور جاپان بھی بڑے ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہیں جن کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تنازعات ہیں۔ یوکرین کے تنازع کے بعد ہتھیاروں کی عالمی تجارت کے ہجم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ آئندہ عشرے میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں بھی اضافہ ہونے کی توقعات کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی کمپنی سولیونوکس کا ایک مجوزہ ڈرون
دفاعی صنعت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز ایجاد اور استعمال کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پرموبائل فون ایک ایسی عام چیز ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک استعمال کر رہے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ موبائل فون میں استعمال ہونے والامائیکرو پروسسر، انٹرنیٹ، ڈجیٹل کیمرا، وائر لیس کمیونیکیشن سسٹم اور جی پی ایس جیسی کئی ٹیکنالوجیز سرد جنگ کے زمانے میں افواج کے لیے ایجاد کی گئی تھیں۔
دفاعی ساز و سامان کی تجارت میں پاکستان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور جو کچھ یہاں بنایا جا رہا ہے اس کا بڑا حصہ افواج پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دفاعی ساز و سامان کی نمائش منعقد کر دینے سے پاکستان کی دفاعی پیداوار اور دفاعی ساز و سامان کی برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے ’’نہیں۔‘‘ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حکومت اور سرکاری ملازمین اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔جو کمپنیاں یہاں دفاعی نوعیت کا کام کر رہی ہیں وہ عام طور پر کسی غیر ملکی کمپنی کا ایجنٹ بن کر بیٹھ جانا پسند کرتی ہیں۔ افواج پاکستان کے آسرے پر رہ کردفاعی مصنوعات کا کاروبار شروع کرنا کوئی اچھا خیال نہیں ہے کیونکہ فوج اور اعلیٰ فوجی افسران کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ مشینیں اور ٹیکنالوجی کی مینوفیکچرنگ اور ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ اگر آپ کوئی کام چھپ کر کرلیں تو کوئی بات نہیں ہے لیکن اگر حکومت کی اجازت مانگیں گے تو اسے خلاف قانون قرار دے دیا جائے گا۔ پاکستانی کمپنی انٹی گریٹڈ سسٹمز کے راجہ خان نے اپنے اسٹال پر رکھے ہوئے مختلف قسم کے ڈرونز کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا ڈرون دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ہم نے 3D پرنٹر پر بنوایا ہے ، ویسے ملک میں تھری ڈی پرنٹنگ پر پابندی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ جب ہم مختلف گریڈ کی دھاتیں، پلاسٹکس اور مٹیریلز بنانے کے قابل نہیں ہوں گے اس وقت تک دفاعی پیدوار کے نام پر مارکیٹنگ کی نوکریاں ہی دھونڈتے رہیں گے۔ ایک عام سی سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی یہ معلوم ہے کہ دفاعی پیداوار کی بنیاد اعلی معیار کی اسٹیل پر رکھی ہوئی ہے لیکن منافع بخش پاکستان اسٹیل ملز کو جان بوجھ کر خسارے میں دھکیل کر بند کر دیا گیا ہے تاکہ اسے اونے پونے بیچ کر اس کی زمین پر رہائشی سوسائٹیز بنا دی جائیں۔ دفاعی پیدوار کے لیے استعمال ہونے والی دھاتیں اور دیگر اشیا ، الیکٹرانک آلات اور انجن وغیرہ بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نہ تو اعلیٰ معیار کی صنعتیں ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت ہے جو چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں اعلیٰ معیار کے پرزے بنا سکے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر خالد رحمن، نوفل شاہ رخ اور سیمینار کے دیگر شرکا
دفاعی نمائش آئیڈیاز کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تعاون سے’’ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ان ڈیفنس مارکیٹ‘‘ کے عنوان سے دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سیمینار کے دوسرے روز ایک ایسی ٹیکنالوجی کا بھی ذکر کیا گیا جس کے ذریعے میڈیا مانیٹرنگ کی جا سکتی ہے۔سیمینار میں اس ٹیکنالوجی کا آف لائن ڈسپلے بھی کیا گیا تھا ۔ جس میں بتایا گیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس الیکٹرانک میڈیا یا ڈجیٹل میڈیا کے بہت بڑے ڈیٹاکی مانیٹرنگ کرے گی اور یہ تجزیہ کرنے کی گی کہ کسی بھی خبر یا تجزیے میں کتنی باتیں مثبت، منفی اور نیوٹرل ہیں۔ اے آئی ، خود ہی بولی ہوئی باتوں کو (املا کی کچھ غلطیوں کے ساتھ) اردومیں لکھ بھی دے گی اور اس کا خلاصہ بھی کرکے حکام کو ثبوت فراہم کر دے گی کہ کسی سیاستداں یا صحافی اور تجزیہ کار نے کیا کہا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے حوالے سے پہلا خیال یہی آیا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کچھ لوگ یہ فیصلہ کر لیں گے کہ کس صحافی کو ملک چھوڑنا پڑے گا اورکس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جائیں گی۔ کون نوکری پر رہے گا اورکس کے پر تراش دیے جائیں گے۔ اسی خیال کے پیش نظر ہم نے اپنے بلاگ کا تجزیہ کرنے کے لیے کہا تویہ بتایا گیا کہ ابھی یہ نظام انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہے۔ اس خواہش کے پیچھے بنیادی خیال یہی تھا کہ میڈیا مانیٹرنگ کا معیار جانچنے کی کوشش کی جائے۔تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ابھی اتنی قابل نہیں ہوئی ہے کہ اردو زبان کے محاوروں، تشبیہ اور استعارے بھی سمجھ کر بات کا مفہوم سمجھ لے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافتی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سارا دار و مدار اس شخص کی عقل اور فہم و فراست پر ہوگا جس کے ہاتھ میں اس کا کنٹرول ہوگا ۔
سیمینار میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس نظام کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئیں اور میدان جنگ کے بدلتے حالات میں جب فیلڈ کمانڈرز کے سامنے بہت سارے اہداف موجود ہوتے ہیں تو ہر ہدف کے بارے میں بیک وقت فیصلہ کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ کمانڈرز کی اس مشکل کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پورا کرے گی۔میدان جنگ کے بدلتے حالات میں موجودہ وقت کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اکیسویں صدی میں جنگیں کیسے لڑی جائیں گی؟ حربی ٹیکنالوجی اور سوچ تیزی سے بدل رہی ہے لیکن اس تیزی سے پالیسیاں تبدیل نہیں ہو رہی ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آلات حرب میں صرف ٹینک، توپیں، میزائل، طیارے اور بحری جہاز وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم اب دفاعی میدانوں کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے جس میں اب روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بائیو ٹیکنالوجی، ڈجیٹل ٹیکنالوجی، سائبر ٹیکنالوجی، اسپیس، سائبر اثاثے، روبوٹکس، آٹومیشن، انسان اور مشین کے مابین تعلق، مشینوں کو جاننے جیسے معاملات ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ آج کے ہتھیار دور مار اور تیز رفتار، پہلے سے زیادہ تباہ کن ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان کی ہدف کو درست نشانہ لگانے کی صلاحیت اور ہتھیاروں کے نظام کی پائیداری پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔میدان جنگ دشمن کی نگاہ سے بچنے کے لیے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہتھیاروں کے نظام کی انٹرنیٹ کے ساتھ رابطے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔صرف فوجیں ہی نہیں بلکہ ہتھیار بھی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اورایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔ اس پورے نظام کو مربوط طریقے سے چلانے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ ملٹری کمانڈز بروقت درست فیصلے کر سکیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا انحصار چونکہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر ہے اس لیے زمین کے اوپر خلا میں کسی قسم کے تصادم یا غلط فہمی سے بچنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ملٹری بینڈ سر بکھیرتے ہوئے
اکیسویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی تیزی سے شہروں کی جانب منتقل ہو رہی ہے ۔ لہٰذا جنگ بھی شہروں کا رخ کر رہی ہیں۔یہ کہا جا رہا ہے کہ مستقبل میں فوجوں کو شہری علاقوں میں چھوٹے چھوٹے آپریشنز کے لیے تیار کیا جائے گا۔اس حوالے سے اہم نوعیت کے ملٹری آپریشنز کی خبریں دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنی تھیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کسی شخص کے چہرے اور ڈی این اے سے شناخت کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ چند ماہ قبل کابل میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری پر امریکی ڈرون کے ذریعے کامیاب قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والے میزائل میں دھماکہ خیز مواد نہیں تھا بلکہ اس میں تلوار جیسے بلیڈز لگے ہوئے تھے جو ہدف کے قریب پہنچ کر کھل گئے تھے۔ اس قبل نومبر2020ء میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ایرانی ایٹمی سائنسداں محسن فخرزادے پر کامیاب قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حملے کے لیے سیٹلائٹ سے کنٹرول کی جانے والی مشین گن استعمال کی گئی تھی جو ایک پک اپ ٹرک پر لگائی گئی تھی۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے فخر زادے کو سیکورٹی گارڈز کے درمیان پہچان کر فائر کیا تھا۔ اس سے قبل ایرانی جنرل قاسم سلمانی بھی امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیے گئے تھے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہی ٹیکنالوجی ہلکے ہتھیاروں کی طرح جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ میں چلی گئی توپھر کیا ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل میں بھی اہم شخصیات کو قتل کر دیا جائے۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹریز میں تیار کیے ہوئے ہتھیار
فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے دوبارہ بڑھتے ہوئے واقعات اورپولیس اور فوجی افسران اور جوانوں کی شہادتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان علاقوں میں دہشت گرد قوتوں کے خلاف آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مدد لی جائے ۔ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز پر حملوں کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات تو واض ح ہو گئی ہے کہ اب ان علاقوں میں جدید بکتر بند گاڑیاں استعمال کرنا پڑیں گی جن میں تھرمل امیج کیمرے بھی لگے ہوں اور انہیں کلر ڈرونز کی مدد بھی حاصل ہوتاکہ پہاڑیوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ فوج کو طاقت کے بے جا استعمال سے روکنا ممکن ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دنیا کی کسی بھی فوج کو بین الاقوامی قوانین کا پابند بنانا اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی نشاندہی اور جرائم کے ثبوت بھی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے فراہم کیے جائیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس جہاں ملٹری کمانڈرز کو مدد فراہم کرتی ہے وہیں یہ تمام فیصلے اسی وقت ریکارڈ بھی کرتی ہے۔ جس کے باعث ملٹری کمانڈرز اور فوجیوں کو قانونی دائرے میں رہ کر کارروائی کرنے کا پابند بنانا اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ریکارڈ کیے گئے انہی ثبوتوں کی بنیاد پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا ممکن پہلے سے زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ افواج کے اخراجات کم کیے جائیںاور انہیں ریگولیٹ کیا جائے۔ ہتھیاروں کی دوڑ کو کم کیا جائے اور ماحول پر فوجوں کے اثرات کو کم کیا جائے تو اس کے لیے فوج کی اعلیٰ قیادت کو تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی مناسبت سے اپنی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔