تحریر: سعید جان بلوچ)
ملک کے صحافتی حلقوں کی محفلوں کی جان محبت خلوص انکساری کے پیکر ممتاز صحافی، مصنف، کالم نگار، تجزیہ نگار سعید خاور کی شخصیت سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، وہ اپنے یاروں دل داروں اور چاہنے والوں کے مرشد تو ہیں لیکن بنا مرید بنے میں نے ان کو اپنا مرشد مان رکھا ہے کیونکہ وہ صحافت کے دورِحاضر کے مرشد ہیں۔ ان کی شخصیت پر لکھنے کیلئے میں نے ان کی زندگی کے اوراق کو پڑھنا شروع کیا ہی تھا اور میں نے مرشد کو جب ان کی زندگی کے بارے میں کچھ جاننے کیلئے فون کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ یوسف خان نے میری زندگی کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا وہ میں تمہیں بھیج دیتا ہوں جو انہوں نے مجھے بھیج دیا اور وہ میں نے من وعن تحریر کر دیا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان کی شخصیت میں جو انکساری، محبت، خلوص، شفقت، خوش لباسی، مہذب انداز گفتگو اور وسیب کا جو عکس نظر آتا ہے اس نے ان کو دیگر تمام صحافیوں سے یقینی طور پر منفرد بنا رکھا ہے-
سعید احمد خان خاور المعروف سعید خاور 24 فروری 1962ء کو ضلع بہاول پور کے ایک صحرائی گاؤں محراب والا میں ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے اجداد عباسی نوابوں کے محکمہ شکاریات کے نگران تھے اور ان کے والد حاجی امیر بخش خان المعروف ”میرن خان“ بھی شکاریات کے ماہر مانے جاتے تھے اور انہی محاسن کی وجہ سے انہیں ہر قسم کے طبقے کی نمائندہ شخصیات تک رسائی حاصل تھی۔ سعید خاور کی تعلیم و تربیت اورجہد مسلسل ان کے والد اور والدہ ”بڑی اماں“ (امیر خاتون) کی ترقی پسندانہ سوچ اور روشن خیالی سے لیس تربیت کی رہین منت ہے۔ غربت اور نامساعد حالات کے باوجود ان کے والدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈیرہ نواب صاحب کے مڈل اسکول سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان 1977 میں گورنمنٹ صادق عباس ہائی اسکول احمد پور شرقیہ سے پاس کیا۔ انہوں نے 1980 میں گورنمنٹ صادق عباس انٹر کالج سے انٹر اور 1983 میں بہاول پورکی معروف درس گاہ صادق ایجرٹن ڈگری کالج سے بی اے کیا۔
سعیدخاور 1980 میں صادق عباس کالج طلبہ یونین کے صدر منتخب ہو گئے۔ 80 کی دہائی میں سعید خاور بطور طالب علم رہنما ضیا آمریت کے خلاف برسر پیکار رہے، آمریت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا نام ”انتہائی مطلوب افراد“ کی فہرست میں شامل رہا اور ان پر 1981 میں ڈیرہ نواب صاحب کے عید گاہ گراؤنڈ میں عید کے ایک بڑے اجتماع سے پرجوش خطاب کی پاداش میں مارشل لائی ضابطوں کے تحت مقدمہ بھی قائم ہوا اور وہ ایک عرصے تک صحرائے چولستان میں روپوش رہے۔ سعید خاور طلبہ سیاست میں سرگرم ہونے کے علاوہ کالج کے مجلہ ”العباس“ کے مدیر بھی رہے۔ اسی کالج سے انہوں نے بہترین سماجی کارکن، بہترین مقرر اور نیشنل کیڈٹ کور کے بہترین کیڈٹ کے اعزازات حاصل کئے اور سال کے بہترین طالب علم کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنائی۔
1983 میں بہاول پور سے گریجویشن کے بعد مالی مسائل کے باعث وہ سلسلہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکے اور تلاش معاش کے سلسلے میں دربدری سعید خاور کا مقدر ہو گئی۔ محراب والا سے لاہور، ملتان، کوئٹہ اور نجانے کہاں کہاں سفر در سفر طے کر کے انہوں نے اپنے پاؤں چھالے بنا لیے۔ طبقاتی تفریق، سماجی ناہمواری کے خلاف اپنے باغیانہ تصورات کی پاداش میں درپیش ناموافق حالات کے پیش نظر سعید خاور نے 1986 میں صحرا سے ساحل کا رخ کیا اور محراب والا سے کراچی چلے آئے اور دسمبر 1989 میں ایک عام کارکن کی حیثیت سے نوائے وقت کراچی میں ملازمت اختیار کر لی۔ کراچی آمد کے بعد سعید خاورنے اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے ادھورے خوابوں کی تعبیر کا سفر دوبارہ شروع کیا۔ صحافتی پیشہ ورانہ مصروفیات اور مارچ 1994 میں شادی کے باوجود 1995 میں وفاقی اردو کالج (زیر نگرانی جامعہ کراچی)کے طالب علم کی حیثیت سے”صحافت“ میں ماسٹرز کیا اور 1996 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے والد کے خواب کی تعبیر ان کی زندگی میں پوری کی جو مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اسے اعلیٰ تعلیم دلاناچاہتے تھے۔ سعید خاور نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی کام یابی کی راہیں کسی ڈھارس کے بغیر خود تراشیں۔
سعید خاور کی شادی مارچ 1994 میں ڈیرہ نواب صاحب کے غوری خاندان میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ زاہدہ خاور دل کے عارضے اور ذیابیطس کے باعث کئی سالوں سے بسترعلالت پر رہیں اور طویل علالت کے بعد 17 جولائی 2016 میں انتقال کر گئیں۔ ان کے دو بیٹے شاہ زیب خاور اور شاہ رخ خاور ہیں۔ بڑے بیٹے شاہ زیب خاور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرتے ہیں اور ان کی شادی دسمبر 2020 میں اقصیٰ خاور سے ہوئی۔ سعید خاور کی بہو کا تعلق کراچی کے ایک معزز میمن خاندان سے ہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے شاہ رخ خاور ابھی زیر تعلیم ہیں۔ زاہدہ خاور کی وفات کے بعد مرحومہ کی چھوٹی بہن سے ان کا 15 ستمبر 2016 کو عقد ہوا اور اب بیگم طاہرہ خاور اس چھوٹے سے خاندان کا مستقل حصہ ہیں، انہوں نے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ شادی سے قبل تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ شادی کے بعد وہ گھر گرہستی کی ہو کر رہ گئی ہیں۔
مائی کلاچی کے شہر کراچی میں اپنی دریافت کے طویل سفر میں سعید خاور نے بے پناہ محنت کی اور خود کو انسانوں کے اس عظیم ہجوم میں گم ہونے سے بچالیا۔ اپنے صحافتی کیرئیر میں انہوں نے کئی اہم کام یابیاں سمیٹیں اور ایک خوددار صحافی اور ذمہ دار مدیر کے طورپر اپنی شناخت بنائی۔اپنے صحافتی کیرئیر میں انہوں نے بہت سی اہم کام یابیاں حاصل کیں اور ایک پیشہ ور صحافی اور ذمہ دار ایڈیٹر کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اردو، سرائیکی اور انگریزی میں خاص اسلوب عطا کیا ہے۔ انہیں بیک وقت خبر نویسی، اداریہ نویسی، مضمون نگاری، فیچر رائٹنگ اور کالم نگاری پر عبور حاصل ہے اور وہ اب تک ہزاروں مضامین، فیچر، رپورتاژ اور کالم لکھ چکے ہیں۔
پیشہ ورانہ صحافت میں سعید خاور کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ نوائے وقت کراچی کے ساتھ اپنی اٹھائیس سالہ طویل وابستگی کے دوران وہ اخبار کے انتظامی اور ادارتی، تمام شعبوں میں مختلف اوقات میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور اگست 2005 سے اپریل 2017 تک وہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
2007 میں جب نوائے وقت گروپ ”وقت نیوز“ چینل کے اجرا کی تیاریوں میں تھا تو سعید خاور نے جرمن میڈیا نیٹ ورک ڈی ڈبلیو کے تحت ”ٹیکسٹ ٹو ٹرانسمیشن“ کی ایک ماہ کی تربیت لی۔ ٹی وی کے تربیتی سیشن میں ان کے ٹرینر ڈی ڈبلیو کے ممتاز ٹرینر مائیکل تھے جنہوں نے جنوبی ایشیا کے بیشتر ٹی وی نیٹ ورکس کے لئے ٹریننگ کی خدمات انجام دیں۔ سعید خاور وقت نیوز کراچی کے 2011 تک سربراہ رہے اور ”چار سال تک ہفتے میں چار پروگرام لائیو کرتے رہے۔ ان کے پروگرام ”ایوان وقت“ اور "داؤپیچ” ناظرین میں مقبول عام رہے۔ نوائے وقت کی انتظامیہ سے ٹی وی کے معاملات پر اختلافات کے بعد انہوں نے وقت نیوز کو چھوڑ دیا اور اپنی خدمات صرف روزنامہ نوائے وقت تک محدود کر لیں۔
2017 میں جب پاکستان سے 92 میڈیا گروپ نے 92 نیوز ایچ ڈی پلس چینل کے ایک سال بعد ”روزنامہ92 نیوز ” شروع کیا تو سعید خاور نے نوائے وقت گروپ چھوڑ کر ”روزنامہ92 نیوز ” کی ادارت کی پیشکش قبول کرلی۔ 2017 سے اب تک وہ 92 میڈیا گروپ سے ہی منسلک ہیں جہاں وہ اردو روزنامہ 92 نیوز اور انگریزی اخبار ”بلوچستان ٹائمز” کراچی کے ایڈیٹر بھی ہیں اور ٹی وی چینل 92 نیوز ایچ ڈی پلس کراچی بیورو کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ سعید خاور کا شمار پاکستان کے ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو بیک وقت اردو اور انگریزی صحافت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
مسلسل ذہنی ریاضت کے طفیل سعید خاور نے زندگی کو جھیلنے کی بجائے اسے ڈھنگ سے برتنے اوراسے دوسروں کے لئے ایک مثال بنانے کے گر سیکھ لئے ہیں۔کراچی میں اپنے تین عشروں پر محیط قیام کے دوران وہ برسوں خواجہ غلام فرید کانفرنس کے سیکرٹری رہے اور وسیب (سرائیکستان) کے درماندہ لوگوں کی بیداری کے لئے اپنے مہربان دوستوں کے ہم راہ خدمات انجام دیتے رہے۔ سعید خاور کی زندگی کے کئی روپ ہیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں بے پناہ مشکلات کے باوجود زندگی میں توازن قائم کر کے جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
سعید خاور بنیادی طور پر ادیب اور مصنف ہیں لیکن معاشی ضرورتوں کے پیش نظر شعبہ صحافت میں آ گئے لیکن بے پناہ صحافتی مصروفیات کے باوجود ان کا ادب سے رشتہ ہمیشہ استوار رہا۔ انہیں پاکستان کی مختلف زبانوں پر عبور حاصل ہے، خاص طور پر اپنی مادری زبان سرائیکی اور اردو میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا بہت مناسب لگتا ہے۔ اب تو انہوں نے انگریزی زبان میں بھی لکھنے کا وطیرہ بنا لیا ہے، جس کا ثبوت ان کی یہ کتاب ” تھر- دی لینڈ آف تھرسٹ“ ہے۔
سعید خاور نے زمانہ طالب علمی میں ”پاکستان کا نظریاتی تشخص“ لکھی جو منظر عام پر نہ آ سکی۔ ”پیاس اور افلاس کا صحرا“ سعید خاور کی تیسری مطبوعہ کتاب ہے، اس سے پہلے 1987 میں ان کی سرائیکی لوک صنف پر کتاب ”ساون چار ڈیہاڑے“ اور 1998میں بزرگ سیاست دان سردار شیر باز خان مزاری کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ” ایک عہد گم گشتہ کی کہانی“ منظر عام پر آ چکی ہے۔ سعید خاور اپنی ٹی وی اور اخبار کی مصروفیات کی وجہ سے برسوں کوئی کتاب نہیں دے سکے لیکن دس برسوں کے وقفے کے بعد شائع ہونے والی ان کی تصنیف ”پیاس ا ور افلاس کا صحرا“ کی تخلیق نے انہیں لکھنے والوں کے ہراوّل دستے میں لا کھڑا کیا ہے۔
یہ کتاب ایک بے چین مسافر اور فرض شناس صحافی کے لق و دق صحرا کے طویل سفروں کی کتھا کہانی، ایک محقق کی کھوج در کھوج مشقت اور ایک روشن خیال اور دردمند ادیب کے مصلحت سے بے نیاز قلم کی شب و روز ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ان کی مسلسل صحرا نوردی سے ایک نیا سعید خاور دریافت ہوا ہے۔جس نے صحرا کی وسعتوں کو ”پیاس اور افلاس کا صحرا“ کی مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے بعد سعید خاور سے پڑھنے والوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ …..
سعید خاور کی آنے والی کتابیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے قارئین کی توقعات سے لاتعلق نہیں ہیں۔ انہوں نے کراچی کے ماضی اور حال پر ایک بہت بڑی کتاب ”کراچی اوراق شبستان“ لکھی ہے۔ یہ کتاب اس شہر کی زندگی، معاشرت اور تاریخ پر غیر روایتی انداز میں لکھی گئی ہے۔ ان کے ترکی اور جاپان کے سفر پر مبنی دو سفر نامے بھی اشاعت کے لیے سازگار حالات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے نوائے وقت کے عروج و زوال پر ایک تفصیلی کتاب ”نوائے وقت ہائی جیکنگ کیس” بھی لکھ رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سعید خاور کے پاس کئی نامکمل تحریری منصوبے ہیں جنہیں مکمل کرنے کے لیے وقت اور خطیر رقم درکار ہے۔امید ہے کہ ایک دن وہ اس معرکہ کو سر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گئے۔