کراچی( کورٹ رپورٹر ) سندھ ہائیکورٹ نے پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد حسین کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔سندھ ہائیکورٹ نےا پنے فیصلے میں کہا کہ پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان دوسرے کیسز میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان کی اپیلوں کا 38 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہےکہ اس کیس کا ایک اہم پہلو مقتولہ کا 2011 میں ایک صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے، پروین رحمان کا وہ انٹرویو آیا قابل قبولیت والا ہے یا نہیں، وہ انٹرویو 2011 میں لیا گیا تھا جو ان کے قتل کے بعد ان ائیر کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ملزمان کے وکلا کا مؤقف ہے قانونی طور پر اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ملزمان کے وکلا کے مطابق مقتولہ کے انٹرویو پر جرح کا موقع نہیں ملا ہے، ملزمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ مقتولہ نے اپنا بیان کسی عدالت کے سامنے ریکارڈ نہیں کرایا تھا ،عدالت ملزمان کے وکلا کا موقف تسلیم کرتی ہے کہ انٹرویو قابل قبولیت والا نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ ہو سکتا ہے مقتولہ کا انٹرویو کراچی کی امن و امان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر دیا گیا ہو، کیس کی جے آئی ٹی کے رکن بابر بخت نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ مقتولہ نے اپنے انٹرویو میں سیاسی جماعتوں پر بھی عمومی نوعیت کے الزام لگائے ، جے آئی ٹی رکن نے کہا کہ جو ملزمان کیس کا سامنا کررہے ہیں ان میں سی کسی پر مخصوص الزام نہیں جب کہ پراسکیوشن نے یہ بھی ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے، ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔
فیصلےکے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول پولیس مقابلے میں مارے جانے ملزم قاری بلال کے پسٹل سے ملتے ہیں، پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے لیکن ملزمان کی گرفتاری کے وقت سے کوئی ایسا کوئی ہھتیار بھی برآمد نہیں کیا گیا ہے، ملزمان کا قاری بلال سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے، پراسکیوشن نے اس حوالے سے مزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا اس ثبوت کی کوئی حثیت نہیں ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ پروین رحمان قتل کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں ہے، جے آئی ٹی رپورٹ میں جو چیزیں بتائی گئیں وہ پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں، جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کسی ملزم کی سزا یا بے گناہی کا فیصلہ نہیں کرسکتی جب کہ مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کاروائی تک مکمل نہیں کی گئی ہے ، ملزمان پر قتل میں معاونت کے الزامات بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں، کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں اور کیس میں شک کا فائدہ ملزمان کو دیا جاتا ہے لہٰذا ٹرائل کورٹ کی جانب سے ملزمان کو دی گئی سزا کالعدم قرار جاتی ہے، ملزمان اگر کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں رہا کیا جائے ۔واضح رہےکہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ پروین رحمان کو 2013 میں قتل کیا گیا تھا اور ان کے کیس میں نامزد ملزمان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے دسمبر 2021 میں 2،2 بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔