کراچی(رپورٹ:اسلم شاہ)سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود کراچی میں ایک بار پھر آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ، بل بورڈز، و اشتہاری بورڈ کے غیر قانونی کاروبار عروج پر ہے۔سڑک، فٹ پاتھ،اور عمارتوں پر قانون کے برخلاف طویل القامت اشتہاری بورڈ لگنے لگے جس کیلیئے نہ اجازت طلب کی، نہ نیلامی، نہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی، بلکہ رشوت، کمیشن و کک بیک لیکر براہ راست الاٹ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے نہ سرکاری خزانہ میں ٹیکس جمع کرانے کی زحمت کی جاتی ہے، نہ اشتہاری بورڈ کی آمدن تقسیم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں ایسے بورڈ بھی لگے ہیں جو نہ سرکار میں رجسٹر ہیں نہ اس کا ریکارڈ موجود ہے اور نہ ٹیکس آمدن کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس وقت اختر علی شیخ نامی شخص اشتہاری بورڈ کا مافیا بن چکا ہے۔ کراچی میں اشتہاری بورڈز کے پانچ ارب روپے کی بندر بانٹ اختر علی شیخ کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ قوی احتساب بیورو کراچی( جسے قوانین میں ردوبدل کر کے بغیر دانت کا شیر بنا دیا گیا ہے،اس لیئے اب وہ بھی کرپشن میں حصہ دار بن گئے ہیں)، اینٹی کرپشن و دیگر تحقیقاتیاداروں کی آنکھیں چمک کے آگے ہو گئی ہیں۔ان سب اداروں کو حصہ بقدر جثہ مال مل رہا ہے۔ عدالتوں کے ٖفیصلے بھی مصلحتوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں جس کے باعث مافیا مضبوط ہورہا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے کراچی میں پبلک پرپراٹی ہر قسم کے بل بورڈ پر پابندی لگا دی تھی لیکن اس ہدایت کے برعکس سڑکوں، فٹ پاتھوں، گرین بیلٹ، رفاہی، فلاحی، پبلک پرپراٹی پر پابندی کے باوجود بل بورڈ لگائے جارہے ہیں۔کراچی میں یہ غیر قانونی کاروبار میونسپل کمشنر جنوبی اختر علی شیخ (جو ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں)کی نگرانی میں چلایا جارہا ہے۔ وہ اشتہاری بورڈ کے کاروبار کے مافیا بن چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں اور عمارتوں میں لگنے والے اشتہاری بورڈز اختر علی شیخ کی مرضی و منشاء کے بغیر نہیں لگ سکتا۔ کوئی بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز و میونسپل کمشنر ان کے کام میں مداخلت کرسکتا ہے نہ کسی قسم کی کاروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ اس گھناؤنے کاوربار میں عبدالغنی ساوتھ، عماد این ڈی خان(شرقی،جنہیں عہدے سے ہٹادیا گیا ہے)، شمونہ صدف (وسطی)کے تعاون نہ ہونے کے باوجود بلند و بالا بورڈز لگایا گیا حفیظ(ملیر)، غلام حسین (غربی و کیماڑی)، عدنان پلیجو (کورنگی) ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، جبکہ پیڈسٹیرل برجز، انڈر پاسز، فلائی اوور، پلوں اور بسوں، پول سائن، شاپ بورڈز پر اشتہاری بورڈ کا کاروبار مبینہ طور ایڈمنسٹریٹر کرچی مرتضی وہاب نے اخترعلی شیخ کے حوالے کردیا ہے۔ وہ کراچی سسٹم(لوٹ مار کا سسٹم جو کلفٹن کے ایک بڑے گھر کی خاتون کی زیر نگرانی کام کرتا ہے) کے تحت کروڑوں اربوں سے ماہانہ وصول کرتے ہیں پھر اسے حصہ بقدر جثہ تقسیم کر دیتے ہیں(مبینہ طور پر یہ سب ایڈمنسٹریٹر کراچی کے آفس میں رات گئے ہوتا ہے)۔ اخترعلی شیخ اکثر نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی کی سرپرستی کی وجہ میرے کام کو کوئی ادارہ روک سکتا نہ کسی کو جوابدہ ہوں چاہے بائی لاز کے مطابق اشتہاری بورڈ کا سائز 15 فٹ چوڑائی اور 45 فٹ لمبائی زمین سے اونچائی 31 فٹ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ کئی مقامات پر کہیں طویل اور بلند و بالا اشتہاری بورڈ لگائے گئے ہیں۔10 فٹ چوڑائی اور 20 فٹ لمبائی زمین سے اونچائی 21فٹ ہے اور کہیں 8 فٹ چوڑائی 12 فٹ لمبائی زمین سے اونچائی 12فٹ کم از کم ہوگی۔ عمارتوں میں لگنے والے اشتہاری بورڈ کے سائز قانون کے مطابق گراونڈ اینڈ فرسٹ فلور پر 15 فٹ و 45 فٹ، سکینڈ اینڈ تھرڈ فلو پر 20 فٹ و 45 فٹ، فور یا اس سے بلند عمارت پر 30 فٹ سے 60 فٹ تک لگایا جاسکتا ہے،تاہم شہر میں دیو ہیکل اشتہاری بورڈ کی بڑی تعداد لگائی جاچکی ہے اور مزید لگانے کے منصوبے پر عملدرآمد جاری ہے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ اورسندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں اور احکامات کو کھلے عام نظرانداز کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی آوٹ ڈور کے بائی لائز 21 نقات پر مشتمل ہیں جو نومبر2021ء کو جاری کیا گیا ہے، جو پہلی بار بلدیات سندھ کی ہدایت پر تیار کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے بائی لائز میں سرٹیفکٹ، رجسٹریشن، ایڈوائزر رجسٹریشن، لائن کی منسوخی، فیس یا واجبات کی وصولی، درخواست برائے اشتہارات کی تنصیبات، بلز بورڈز۔ پائن سائن، اشتہاری بورڈ، اشتہاری بورڈ انڈر پاسز، برجز، بجلی کے الات کی تنصیبات سمیت دیگر امور پر ردبدل اور بعض ترامیم کی گئی ہیں۔