لاہور( نمائندہ خصوصی)
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ دنیا میں کوئی مثال نہیں کہ جنرل کی تقرری کے لیے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس سیاسی کھینچا تانی کے بعد جو آرمی چیف آئے گا وہ ادارے کو دیکھے گا یا سیاسی پارٹیوں کے مفادات کو؟ پہلے روز سے کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملہ کو سیاستدانوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے، چیف جسٹس کی طرز پر تعیناتی کا قانون بن گیا تو یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا، خوشی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے میرے مؤقف کی تائید کی۔ آئین اور سویلین بالادستی، انتخابی اصلاحات اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل سے مکمل غیرجانبداری پر میکنزم کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں، تین نکاتی ایجنڈے پر نیا سوشل کنٹریکٹ وقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں ادارے آزاد نہیں، پارلیمنٹ میں لوگ دولت کے زور پر آتے ہیں، سیاست لوٹوں اور نوٹوں کا کھیل بن گئی، معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں اور تعلیمی نظام طبقاتی ہے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی استعماری ایجنڈے کی محافظ ہیں، دونوں اطراف کی پالیسیوں میں تسلسل، دونوں سٹیٹس کو قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ ملک میں پائیدار جمہوریت کے قیام، آئین و قانون کی بالادستی اور سٹیٹس کو توڑنے کے لیے وکلاء کا ساتھ چاہیے۔ جماعت اسلامی اور لائرز کمیونٹی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی قیادت باقاعدگی سے صاف اور شفاف الیکشن کے ذریعے اوپر آتی ہے تو وکلاء کی تنظیموں کے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آئیے مل کر ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنائیں جہاں سب کو انصاف ملے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صدر اسلام آباد بار حفیظ اللہ یعقوب، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ایسا پاکستان چاہتی ہے جہاں چادر و چاردیورای کا تحفظ ہو، انسان کی جان ومال، خواتین کی عزت و آبرو محفوظ ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، ریاست غریب کی کفالت کرے، کوئی کسی سرمایہ دار کی دولت یا جرنیل کے ڈنڈے سے نہ ڈرے، صاف و شفاف الیکشن ہوں، عام فرد عدالت کے دروازے سے خوفزدہ نہ ہو اورججز چہرے دیکھ کر فیصلے نہ کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کیا آزادی کے حصول کے 75 برسوں بعد بھی ہم ایسا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وسائل سے مالامال ایٹمی اسلامی پاکستان پر 62 کھرب قرض ہے، ہر شہری ڈھائی لاکھ کا مقروض، ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر اور حکمرانوں نے قوم کو امریکی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کا طوق پہنایا ہوا ہے۔ حکمران جماعتیں جاگیرداروں، وڈیروں اور مافیاز کے کلبز ہیں جہاں خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے اورجمہوریت کا تصور تک نہیں۔ مغربی این جی اوز ہمارا تعلیمی نصاب تشکیل دیتی ہیں اور ڈبلیو ایچ او ہماری صحت کو کنٹرول کرتا ہے، پارلیمنٹ نے ایک دن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے حکم پر ایف اے ٹی ایف سے متعلق 33قوانین پاس کیے، ممبران نے پڑھے بغیر ٹھپے لگائے، لوگ عدالتوں کے چکر کاٹتے قبر میں چلے جاتے ہیں، انصاف نہیں ملتا۔ ملک ایک عالمی استعماری کے تحت چل رہا ہے جس کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا کہ وکلاء معاشرے کے سب سے سمجھدار طبقات میں سے ایک ہیں، آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم نے اسی فرسودہ نظام کے تحت چلنا ہے یا اپنی نسلوں کا مستقبل بنانا ہے۔ ہمیں سٹیٹس کوسے نجات حاصل کرکے اس نظریہ پر جس کے تحت ملک حاصل کیا گیا نظام کی تشکیل کرنی ہے۔
سراج الحق نے سوال کیا کہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے، روٹی، کپڑا، مکان اور حقیقی تبدیلی کے نعرے لگانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے سالہا سال حکمرانی کے بعد کیا دیا؟ انھوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ حکمران سٹیٹس کو کے چوکیدار ہیں جو بری طرح ایکسپوز ہوگئے ہیں، توشہ خانہ ہو یا ملک کا خزانہ انھوں نے سب سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی اقتدار میں ہیں لیکن ان کو عوام کی کتنی پرواہ ہے صرف سیلاب زدگان کی صورت حال دیکھ کر اندازہ لگا لیں۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کو اللہ نے موقع دیا تو ہم ملک کو سود سے پاک معیشت دیں گے، نوجوانوں کو سرکاری زرعی زمینیں دی جائیں گی، تعلیم و صحت کی سہولتیں سب کے لیے یکساں ہوں گی، ملک کے وسائل عوام پر خرچ ہوں گے، کرپشن کا خاتمہ اور انصاف اور احتساب کا کڑا نظام نافذ کیا جائے گا۔ انہوں نے وکلا اور عوام سے اپیل کی ملک کو عظیم فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔