اسلام آباد (ماننٹرنگ ڈیسک)
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جس طرح کے الزامات انہوں (عمران خان) نے لگائے ہیں، کسی سیاست دان نے 75 سال میں پاک فوج کی لیڈرشپ پر اس قسم کے کوئی الزامات نہیں لگائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل پیر سے شروع ہو جائے گا اور اگلے ہفتے تک نئے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا۔
نجی ٹی وی کے شومیں انیکر نے پوچھا کہ آپ نے کہا تھا کہ 18 نومبر تک یہ عمل شروع ہو جائے گا لیکن آخری اطلاعات تک سمری نہیں آئی ہے، تو پھر آپ کوئی اگلی تاریخ دیں گے۔خواجہ آصف نے کہا کہ آج 18 تاریخ ہے، کل ویک اینڈ (ہفتے کا آخری دن) ہے، اس پر کیا پروسیس شروع ہونا ہے، یہ عمل پیر سے شروع ہو جائے گا، اس کا فیصلہ اگلے ہفتے میں آ جائے گا اور اگلے ہفتے تک نئے آرمی چیف کا نام بھی سامنے آجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ان شا اللہ تعالیٰ 29 نومبر کو تقریب بھی ہو جائے گی، سیاسی لوگوں نے کنفیوژن پھیلائی ہوئی ہے، عمران خان اپنے مفادات کے لیے اس معاملے کو متنازع بنانے کی پچھلے کئی ماہ سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ اگر ان کی مرضی کا آرم ی چیف نہیں لگتا تو کسی نہ کسی طرح یہ سارا مسئلہ متنازع ہو جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بات بڑی وضاحت سے کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لگائیں گے، یا اس سے وہ اپنے کیسز ختم کروائیں گے، یہ آرمی کے 5، 6 تھری اسٹار جنرلز پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ ان جنرلز نے 30، 35 سال ملک کی خدمت کی ہوئی ہے، پی ایم اے سے لے کر تھری اسٹار جنرل بننے تک ان سب کے بہترین کیرئیر ہیں، یہ سب قابل احترام ہیں، ان کے اوپر یہ الزامات لگانا کہ کوئی بھی سیاست دان ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کا جھگڑا اسی بات پر ہوا، عمران خان سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ آپ نیوٹرل نہیں ہوسکتے، آپ کو میری سائیڈ لینی پڑے گی۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کے الزامات انہوں نے لگائے ہیں، کسی سیاست دان نے 75 سال میں پاک فوج کی لیڈرشپ پر اس قسم کے کوئی الزامات نہیں لگائے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ قیاس آرائیاں پیدا ہو رہی ہیں کہ شاید عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان بھی نام پر اتفاق نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے سمری نہیں آرہی ہےتو خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے وزارت دفاع کو خط جاتا ہے کہ آپ ڈوزیئر بھیجیں، جس میں 5، 6 نام ہوتے ہیں، وہ وزیر اعظم کو بھیج دیے جاتے ہیں، وزیراعظم کی صوابدید ہوتی ہے کہ ایک افسر کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف اور ایک افسر کو چیف آف اسٹاف بنا دیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل کئی دہائیوں سے چل رہا ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عمران خان ابہام یا شبہ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں وزیردفاع نے کہا کہ جو نام ہوگا، اس پر آرمی کی قیادت اور وزیراعظم میں مکمل اتفاق ہوگا، باوجود اس بات کے آئینی طور پر صوابدید وزیراعظم کی ہے، پھر بھی ادارے کا معاملہ ہے، جو ہمارے دفاع کی سب سے بڑی دیوار ہے، چاہے وہ بیرونی دشمن ہوں یا اندرونی دشمن ہوں ان کا کہنا تھا کہ جو نام آئیں گے، فوج کا عمل ہے جس کے تحت وہ نام بھیجتے ہیں، اس میں سے ایک نام پر اتفاق رائے ہوگا، وزیراعظم صوابدیدی اختیارات استعمال کرکے سمری صدر کو بھیج دیں گے، اور وہ نامزد ہو جائیں گے۔صدر مملکت عارف علوی کی اسحٰق ڈار سے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ اس حوالے سے وہاں پر بات نہیں ہوئی، ان کے درمیان معاشی معاملات پر بات چیت ہوئی۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آرمی چیف کے نام پر اتحادیوں میں اتفاق ہے تو خواجہ آصف نے کہا کہ کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، بالکل اتفاق رائے سے ہوگا، شہباز شریف نے تمام تر فیصلے اتفاق رائے سے کیے ہیں۔مجوزہ قانون سازی (آرمی ایکٹ) سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے ٹوئٹ کر دیا تھا کہ وہ قانون سازی نہیں تھی، 2019 کا ایک فیصلہ ہے، اس کی ضرورت تھی، جو گزشتہ تین، چار سال میں نہیں کی گئی، میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کا توسیع کے حوالے سے جو فیصلہ تھا، اس کے ساتھ ایک نوٹ لکھا ہوا تھا، اس تعیناتی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔نئے آرمی چیف کی تعیناتی ایک سے دو دن میں ہوجائے گی، رانا ثنااللہ
قبل ازیں، وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوچکا اور فیصلہ پیپر پر آنا باقی ہے اور ایک سے دو دن میں فیصلہ ہوجائے گانجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل سے متعلق سوال پر کہا کہ ’اتنے حساس اور اہمیت کے حامل فیصلے پیپر پر لانے سے پہلے ایک اتفاق رائے ہوتی ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں ’مرکزی اختیار آئینی اور قانونی طور پر وزیراعظم کا ہے اور میرا تجزیہ ہے کہ اس پر اتفاق رائے کہہ لیں، وہ حاصل ہوچکا ہے اور یہ چیزیں پیپر پر آنا اور اس پر عمل ہونا ایک رسمی کارروائی رہ جاتی ہے‘اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے سوال پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’مشاورت سے مراد کسی کا اختیار نہیں ہوجاتا ہے، وہ کسی سے بھی پوچھ سکتے ہیں اور جو مختلف چوائسز ہیں، ان کے متعلق وہ معلومات لے سکتے ہیں لیکن بالآخر فیصلہ تو انہوں نے ہی کرنا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس بارے میں جو بھی حتمی فیصلہ ہوگا وہ وزیراعظم کریں گے جو ان کا آئینی اختیار ہے لیکن کسی مشورہ لینا اور بات کرنا یقیناً آرمی کی قیادت اور سیاسی طور پر اپنے اتحادیوں اور دوسرے لوگوں سے بھی بات کی ہوگی‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ کسی کو سرپرائز دینے والی بات تو نہیں ہے لیکن ایسے فیصلے جو بہت ہی اہمیت کے حامل ہوں وہ پیپر پر لانے سے پہلے اتفاق رائے ضروری ہوتی ہے‘۔وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ ’سیاسی طور پر اور حکومت میں ہوتے ہوئے میرا ذاتی خیال ہے کہ وزیراعظم یہ عمل کرچکے ہیں، آن پیپر آج آجائے، کل آجائے یا آنے والے دو دنوں میں آجائے، اس میں کوئی دیر نہیں ہے‘۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میری معلومات کے مطابق وزیراعظم نے خود مشاورت کی ہے اور اسحٰق ڈار سے جہاں کہیں ضرورت تھی وہ ان سے حاصل کی ہے‘۔وزیراعظم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ صاحب فراش ہیں لیکن اس کے باوجود فاصلے سے اور ٹیلی فون سے ہر کسی سے بات کرسکتے ہیں‘۔اتحادیوں کے اتفاق سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کہ وزیراعظم کے فیصلے کا اعلان ہونے سے پہلے اس پر کسی قسم کا اندازہ یا تجزیہ کیا جاسکے اور ایک ادھ دن کی بات ہے اس لیے ایسے سوالات نہ کریں کہ جس سے خوامخواہ بات چلے کے فلاں ہوسکتا ہے، بہت اہمیت کا معاملہ ہے اور میرا نہیں خیال کہ کوئی زیادہ وقت رہ گیا ہے بلکہ وقت آن پہنچا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال اور میری رائے ہے کہ اس معاملے میں ایک ادھ دن سے زیادہ تاخیر مناسب نہیں ہوگی باقی وزیراعظم کی رائے حتمی ہوگی لیکن میرا خیال ہے کہ ایک دو دنوں میں یہ فیصلہ آپ کے سامنے آجائے گا‘وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’فیصلے سے مراد چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری ہے‘عمران خان کے الزامات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ان کو کسی عزت کا خیال اور احساس نہیں ہے، نواز شریف نے کسی کو آرمی چیف تعینات کیا ہے تو بعد میں ہمارا دعویٰ ہے کہ نواز شریف نے کسی آرمی چیف سے یہ باتیں نہیں کیں جو یہ منسوب کر رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’جب تمہیں اس بات کی تسلی ہے تو پھر خواہ مخوا ایک عمل کو سبوتاژ کرنے اور ایک آنے والے آدمی کو مشکلات کھڑی کرنے اور دوسروں کے لیے بے عزتی پیدا کرنے کے لیے ایسی بات کیے جارہے ہو۔اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اپنی تقریر میں نواز شریف پر الزام عائد کیا تھا کہ کیا اس کو یہ حق ہونا چاہیے کہ آرمی چیف کس کو بننا چاہیے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے کرپشن کے کیسز سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس (نواز شریف) کو ہے، اس نے اربوں روپے کی چوری کی ہوئی ہے، اس کو ڈر ہے کہ اگر عمران خان آ گیا تو اس کا (نوازشریف) احتساب شروع ہو جائے گا۔نواز شریف پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں کہتا کہ یہ آرمی چیف جو بھی بنائے گا وہ یہ کرے گا یہ نہیں، کیونکہ یہ آرمی چیف بناتا ہے، اسی سے اس کی لڑائی ہو جاتی ہے، آرمی چیف پروفیشنل آرمی کا سربراہ ہے، وہ پنجاب کے آئی جی طرح بن نہیں سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ آرمی چیف سے کہے گا کہ پہلے تو کسی نہ کسی طرح عمران خان کو فارغ کرو تاکہ وہ الیکشن نہ لڑے، اس کے بعد اس (نواز شریف) نے کہنا ہے کہ میرے سارے کرپشن کے کیسز ختم کرو۔