(تحریر: محمد نواز طاہر )
نفرت اور محبت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس کی شدت بڑھتی ہے تو وہ دوسری کی شکل اختیار لیتی ہے ، ممکن ہے کبھی ایسے ہی ہوتا ہو اور شائد کبھی کبھارفلموں اور ڈراموں کے علاوہ بھی ایسا ممکن ہوا ہو لیکن قریب قریب ناپید ہے ، اس میں اگر کوئی مشری اورمغربی جرمن مین دیوار برلن گرنے کی مثال دے تو بطور مثال یہ بہت اعلیٰ ہے لیکن اس کے علاوہ اس کی نظیر کہیں اور دکھائی نہیں دیتی ۔
ہمارے ہاں انسانی رشتوں کے ایسے حوالے موجود ہیں کہ سارے جہاں سے ٹکرانے کے بعد محبت کی شادی کرنے والوں میں علیحدگی اور طلاق ہوئی تو نفرت ایسی بڑھی کہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ برِ صغیر میںکچھ حوالے قابلَ ذکر ہیں جن میں پاکستانی کرکٹر محسن حسن خان اوربھارتی اداکارہ رینا رائے کی شادی کے بعدجب علیحدگی ہوئی تو اس میں ایسی تلخی نہیں سامنے نہیں آئی کہ ان کی جنت ( بیٹی جس کا پیدائشی نام بھی جنت ہے ) جہنم بنی ہو۔ پاکستانی کرکٹر عمران خان نے امریکی خاتون جمائما اسمتھ سے شادی کرکے جمائماخان بنایا تو علیحدگی کے بعد یہ محترمہ بھی رینا رائے سے زیادہ بہتررویے کے ساتھ اب تک اپنی مثال آپ ہیں جبکہ عمران خان کی پہلی پاکستانی بیوی ریحام خان قطعی طورپر الگ ثابت ہوئیں اور اپنی گفتگو سے عمران خان کی شخصیت کے بخیئے ادھیڑیدیے ،ایسی ہی صورتحال گلوکار عدنان سمیع اور اداکارہ یبا بختیار کے شادیٹوٹنے کے بعد سامنے آئی جبکہ بیٹے ( ازان) کی تحویل کیلئے دونوں میں کم و بیش چھ سال عدالتی جنگ لڑی گئی ، دیگر مقدمات اسکے علاوہ تھے ،زیبا کی عدنان سے پہلے اور بعد کی بھی شادیاں ہیں ۔ اتفاق یہ ہے کہ ان حوالوں میںشوروغل اور خانگی کھپ رولا صر ف دو مسلمان خواتین کے دان میں ہے( اس میں ان کا درست یا غلط ہونا زیر بحث نہیں) ، اب پھر پاکستانی کرکٹر شعب ملک اور بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا میں علیحدگی کا معاملہ سامنے آیا ، پاکستان اور بھارت کی یہ مسلمانوں کی جوڑی ہے اللہ جانے کل کو کیا کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے ۔۔۔
بات چونکہ محبت اور نفرت کی شدت کی تھی توبرصغیر میں محبت عموماً مذہب کی بھینٹ نہیں چڑھی اور یہاںکے باسیوں نے جب بھی موقع ملا مذہب اورعقیدے کو برطر ف کرتے ہوئے محبت کی اعلیٰ مثالیں بھی قائم کیں ۔
ایک ایسی ز ندہ مثال ’ پاکستان ‘ ہے ۔ محبت اور محبت کو یاد گار بنانے کی یہ مثال بھی تقسیم ہند سے پہلے دوقومی نظریے کی بنیاد پر دو ٹکڑوں میں ملنے والے وطن کا نام ”پاکستان ‘ تجویز کرنے والے چودھری رحمت علی کی سالگرہ پر یاد آئی ۔
قیام پاکستان کے وقت جہاں خون ایک دوسرےسے دل و جان نچھاورکرنےوالوں کی شدید محبت اچانک شدید نفرت میں تبدیل ہوئی تو جگہ جگہ خون کی ندیاں بہہ گئیں ،اگرچہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مسلم اور غیر مسلموں نے ایک دوسرے کو بچانے کیلئے قربانیاں بھی دیں جن کی نشانیاں آئے روز دونوں ملکوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جو فلمی مناظر نہ ہونے کے باوجود فلمی ڈرامائی منظر ہی لگتے ہیں ۔ ایسے میں ہمیں تقسیم شدہ ہدوستان بھارتی حصے میں بننے والا ’پاکستان‘’ یاد آتا ہے ۔یہ پاکستان وہ نہیں جونصاب کے مطابق بھارت کو ہر وقت دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا اور چبھتا ہے بلکہ یہ وہ پاکستان ہے جو خود بھارت کے ہندوﺅں نے مسلمانوں کی محبت میں بنایا تھا۔ اور بہت سے لوگ اس ابہام کا شکار ہیں اور بعض کو تو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ چودھری رحمت علی ’پاکستان ‘ کے خالق ہی نہیں ، یہ نام تو پہلے سے بھارت میں موجودتھا جبکہ یہ لاعلمی اور جہالت کی انتہا اور چودھری رحمت علی کی توہین ہے ۔ درااصل یہ دونوں پاکستان ایک ساتھ ہی وجود میں آئے ایک پاکستان کے لئے مشکلات اٹھائی گئیں تو وسرے پاکستان کو اس سے یکسر مختلف حاات ملے ، یہ پاکستان مسلمانوں سے ہندوﺅں کی محبت اور رواداری کی عالمی مثال ہے ، یہ الگ بات کہ اس پاکستان میں نہ توکوئی مسلمان رہا ہے اور نہ ہی کوئی مسجد رہی ہے ، یہ پاکستا ن تقسیم ہندکے وقت تب وجود میں آیا جب اس دور افتادہ غریب آبادی کے مسلمان سہانے سپنے سجائے دنیا کے نقشے پر سبز ہلالی پرچم کے ساتھ ابھرنے والے پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے تو جاتے ہوئے جو سامان ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے،مال مویشی جو غیر منقولہ ترکہ تھا وہ اپنے ہمسائیوں کے سپرد کرگئے تو اس گاﺅں والے نے اپنے پرانے مکینوں کے کی محبت میں ان کے نئے وطن ُاکستان کے نامپر اس بستی کا نام بھی ’پاکستان ‘رکھ دیا ۔ یہ پاکستان بھارت میں آج بھی موجود ہے گو کہ یہاں ترقی کی شاہراہ بھارت کے دیگر علاقوں کی طرح نہیں گذری لیکن بھارت میں یہ پاکستان بستا ہے ۔
کچھ عرصے پہلے تک یہاں بسنے والوں کو پاکستان میں بڑی کشش تھی لیکن اچانک حالات بدلے، جیسے یہاں لاہور میں کرشن نگر کو اسلامپورہ اور رام گڑھ کو مجاہد آباد، بھارت نگرکو پاک نگر میں تبدیل کردیا گیا تو بھارت میں بھی انتہا پسندیبڑھنےپر اس مثالی محبت کی یادگار ر افتاد آن پڑی ہے اور پاکستان خطرے میں پڑ گیا ہے اس کا بنیادی سبب انتہا پسندی میں اضافہ ہے ۔ یہاں کے کمین پاکستانی کہلاتے ہیں اوراردگرد کے لوگ انہیں جب پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں تو ساتھ طعنے بھی دیتے ہیں اور اسی انتہا پسندہ و قدامت پسندی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق کیوں رکھیں جو پاکستانی کہلاتے ہیں ۔ ،یہی وہ جواز گھڑا جارہا ہے، اس موقف کی سب سے زیادہ سپورٹ یہاں کے انتہاپسند رکن پارلیمان کرتے ہیں اور نفرت کو بڑھاوا دیا جارہا جسکی بنا پر محبت کی یاگار پاکستان کا نام تبدیل کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جس طرح بھارت میں کئی دیگر مقامات کے نام تبدیل کردئے گئے ہیں اور تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بین ایسا ہی کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے ، بھارت میں پاکستان کا نام تبدیل کرنے کی کوشش وہ لوگ کررہے ہیں جنہیںیہ تک معلوم نہیں کہ پاکستان سے پہلے اس بستی کا نام کیا تھا ، وہ اپنے اباﺅ اجداد کی محبت کی یہ نشانی سرکاری دستاویزات سے صرف نام کی حد تک ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن جو اراضی اور ترکہ اسی ’پاکستان ‘ کے نام کے حوالے سے انہیں منتقل ہوا ہے اسکے حوالے سے مکمل خاموش ہیں، اور اس پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں جیسے پاکستان میں نام تبدیل کرنےوالے لوگ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں مقیم افراد کی چھوڑی ہوئی پراپرٹی کے مالک توبنتے ہیں لیکن ان کی اصل مالکان کے نام پر نہ تو سڑک ، گلی محلے اور کسی نکڑ ، کونے کا پرانا نام برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ محبت اور نفرت کی یہ شدت رواداری ، تحمل اور برداشت کوروندتے ہوئے نجانے کیا کیا گُل کھلنے والی ہے،۔۔۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی طرح ۔۔ سیاستدانوں کے اطوار واندا کی طرح ، پاک بھارت تعلقات کی طرح ۔۔۔۔۔