کراچی(نمائندہ خصوصی) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ربیع کی فصل کیلئے کاشتکاروں نے جو بیج خریدا ہے اس کیلئے آئندہ 20 دنوں میں انھیں نقد رقم کی فراہمی شروع کی جائے۔ سیلاب/بارش نے کاشتکاروں کو پہلے ہی زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اب انہوں نے ربیع کی فصلوں کیلئے اپنی زمینیں تیار کر لی ہیں تو لہذہ انکی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انکی مدد کرنی چاہیے یہ بات انہوں نے پیر کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزراء، منظور وسان، شرجیل میمن، سعید غنی، ناصر شاہ، مکیش چاولہ، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب، مشیر بحالیات رسول بخش چانڈیو، چیف سیکرٹری سہیل راجپوت، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری فیاض جتوئی اور مختلف محکموں کے سیکرٹریز۔ نے شرکت کی۔بیج کی فراہمی: چیئرمین پی پی پی کو بتایا گیا کہ حالیہ سیلاب سے 36 لاکھ ایکڑ رقبے پر تیار فصل کو نقصان پہنچا ہے جس سے کاشتکاروں کو 421 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ کسانوں کو ریلیف دینے کیلئے انھیں مفت ضروری اشیاء فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا پہلے اقدام پر کسانوں کو گندم کے بیج کیلئے نقد رقم کی منتقلی کے ذریعے 5000 روپے فی ایکڑ معاوضہ دیا جارہا ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس اقدام کیلئے صوبائی حکومت نے 8.39 ارب روپے فراہم کیے ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے 4.7 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس مقصد کیلئے کل 13.5 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے چیئرمین کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ کے وعدے کے بعد کھاد پر سبسڈی کی فراہمی پر کام کیا جائے گا جسکے لیے 46 ارب روپے درکار ہیں۔ وزیراعلیٰ نے چیئرمین کو بتایا کہ ورلڈ بینک 25 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسانوں کی مدد کر رہا ہے۔ اس پر چیئرمین پی پی پی نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی کہ وہ صوبے کے تمام کسانوں کو گندم کے بیج خریندے کیلئے معاوضہ ادا کریں قطع نظر اس کے کہ انکی زمین کتنی رقبے کی بھی ہو۔ وزیراعلیٰ کے مشیر منظور وسان نے اجلاس کو بتایا کہ 2.43 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کی بوائی کی گئی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر کاشتکاروں کو کھاد دی جائے تو 45.51 ارب روپے درکار ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گندم کیلئے ڈی اے پی (DAP) اور یوریا کی لاگت 39.48 ارب روپے، تیل کی فصلوں کیلئے بیج کی قیمت 1.85 ارب روپے اور تیل کے بیجوں کی فصلوں کیلئے کھاد (ڈی اے پی اور یوریا) پر 41.8 ارب روپے لاگت آئے گی۔ چیئرمین نے منظور وسان کی سربراہی میں شرجیل میمن اور سید ناصر شاہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد تصدیق کرے گی تاکہ جلد از جلد رقم کی ادائیگی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ان کے کھاتوں میں رقوم کی منتقلی یا موبائل فون کیش سسٹم کے ذریعے ٹیکسٹ میسج بھیجے جائیں۔
گھروں کی تعمیرات : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے محفوظ مکانات تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ سیلاب یا شدید بارشوں جیسی قدرتی آفت سے وہ بچ سکیں۔ ہمیں ایسے گھروں کی ضرورت ہے جو خشک سالی، موسلادھار بارشوں، طوفانوں، سیلابوں اور اس طرح کی دیگر آفات کو برداشت کر سکیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے چیئرمین پی پی پی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موسلا دھار بارش/سیلاب سے 1.7 ملین مکانات کو مکمل اور جزوی نقصان پہنچا ہے جنھیں فوری مکانات کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کی بحالی کی کوششیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس لیے ہم متاثرہ افراد کیلئے مکانات کی تعمیر نو سے متعلق ایک معیار کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ اس موقع پر چیئرمین بلاول بھٹو نے تجویز پیش کی کہ گھروں کو موسم کے موافق تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں آنے والی آفات کا مقابلہ کر سکیں۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے بہترین مکانات تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے میں سیلاب یا شدید بارشوں جیسی قدرتی آفت کے باوجود وہ بچ سکیں، لیکن اس ٹیکنالوجی کو منتخب کرنے میں مزید وقت لگ سکتا ہے اس لیے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر کیلئے پیکج کو جلد از جلد حتمی شکل دی جانی چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے چیئرمین کو بتایا کہ اب تک 220 ارب روپے کا بندوبست کیا جا چکا ہے جس میں عالمی بینک کی جانب سے 110 ارب روپے، وفاقی حکومت کی جانب سے 55 ارب روپے اور سندھ حکومت کے 55 ارب روپے شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مکمل طور پر تباہ شدہ مکانات کیلئے مجموعی تخمینہ 300 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیئرمین پی پی پی کو بتایا کہ ہاؤسنگ پروجیکٹ کا پی سی ون وفاقی حکومت کے پلاننگ کمیشن کے پاس پڑا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے اس کی منظوری لیں گے اور وزیراعلیٰ کو یقین دلایا کہ فنڈز کو پورا کرنے کیلئے مزید ڈونرز سے رابطہ کیا جائے گا۔
امدادی سرگرمیاں: چیئرمین کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومت، NDMA، پاک بحریہ اور فضائیہ کی جانب سے اب تک 749979 خیمے، 525177 ترپال، 36 لاکھ مچھر دانیاں اور 22 لالکھ راشن بیگ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔
نتیجہ خیز نقصانات: وزیراعلیٰ نے اپنی پارٹی کے سربراہ کو بتایا کہ سندھ میں غربت 8.9 سے 9.7 فیصد پوائنٹس کے درمیان بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ کثیر جہتی غربت میں 10.2 فیصد اضافہ متوقع ہے اور سندھ میں گھروں کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو کہ کل ہاؤسنگ نقصانات کا 83 فیصد ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ سماجی تحفظ کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ غربت پر قابو پایا جاسکے۔
سیلابی پانی کا اخراج: وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 31 اگست 2022 کو دریائے سندھ کے رائٹ بینک کے ساتھ تقریباً 1988919 ایکڑ (2.0 M ایکڑ) رقبہ زیر آب تھا اور پانی کا تخمینہ تقریباً 14 MAF تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 10 نومبر 2022 تک 1547959 ایکڑ کے علاقے کو خالی کرایا گیا ہے جو کہ رائٹ بینک کے کل ڈوبے ہوئے علاقے کا تقریباً 78 فیصد تھا جبکہ پانی کے نیچے زمین کا توازن رقبہ 440960 ایکڑ (0.44 M ایکڑ) تھا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ نومبر 2022 کے آخر تک دریائے سندھ کے رائٹ بینک پر متوقع خالی ہونے والا علاقہ تقریباً 90 فیصد ہو جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے بلاول بھٹو کو بتایا کہ بقیہ 10 فیصد رقبہ میں مزید کم از کم ایک ماہ (دسمبر 2022) کا وقت لگے گا۔ دریا کے لیفٹ بینک سے متعلق بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ 31 اگست 2022 کو تقریباً 1292419 ایکڑ (1.3 M ایکڑ) رقبہ زیرآب تھا جبکہ 10 نومبر تک 1169742 ایکڑ کا رقبہ خالی کرایا گیا ہے جو کہ دریائے سندھ کے لیفٹ بینک کے کل ڈوبے ہوئے رقبے کا تقریباً 91 فیصد ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق، لیفٹ بینک کی جانب پانی کے نیچے موجود زمین کا بقیہ رقبہ 122677 ایکڑ (0.12 M ایکڑ) ہے جبکہ رائٹ اور لیفٹ بینک کا مجموعی طور پر 83 فیصد رقبہ خالی کرا لیا گیا ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ نشیبی علاقوں بالخصوص خیرپورناتھن شاہ ضلع خیرپور اور ایسے دیگر علاقوں سے جنگی بنیادوں پر پانی نکالنے کا عمل تیز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں کے موسم کی آمد سے پہلے اس پانی کو خارج کر دینا چاہیے۔