کراچی(ادبی رپورٹر ) انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام دو روزہ ” ادب و صحافت ” کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ کانفرنس کے پہلا روز تین سیشن ہوئے جس میں ملک کے معروف اہل قلم ، ادیب ، شاعر ،پروفیسر اور دیگر اہل ذوق نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ اس موقع پر صدر انجمن نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کا آغاز دو سو برس قبل ہوا اور یہ سفر مختلف ادوار سے گزر کر آج ہمارے سامنے موجود ہے ۔اردو صحافت کے آغاز سے زبان کو نئے راستے ملے ، ہم اردو کی ترقی و ترویج کے لیے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشن پر گامزن ہیں ۔اردو کو ڈیجٹل دنیا سے روشناس کرانے کا عمل ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے این ای ڈی کے اشتراک سے ہم نے اب ایسی ویب سائٹ بنا لی گئی ہے جو اردو کو ڈیجٹل دنیا میں روشناس کرانے کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال نے کلیدی خطبے میں کہا کہ اردو ادب اور صحافت میں سیاحت اور مصحافت کا تعلق ہے دونوں میں فرق اتنا ہے کہ اردو ادب بہت حد تک آزاد و خود مختار رہا ہے جب کہ صحافت پابند اور دباؤ کا شکار رہی ہے۔ اردو صحافت کوابتدا میں فروغ دینے والوں میں ادبا اور شعرا کا اہم کردار رہا ہے یہ صحافت کا کمال تھا جس نے تحریک آزادی میں کردار ادا کیا اور اپنے اپنے نظریے پرقائم رہنے کے باوجود اخبارات میں لکھنے والے اداریہ نویس ، کالم نویس نے بڑی مہارت سے کام کیا ۔ سر سید نے جس صحافت کی بنیاد رکھی وہ معاشرتی تھی ۔ ان کا مشن تھا کہ صحافت کے ذریعے معاشرے کے ،عمولات کو زیادہ اہمیت دی جائے ۔ان کے اخبارات میں سنسنی خیزی نہیں تھی لیکن آج اخبار اس سے بہت دور ہیں ان میں کہیں سچ نظر نہیں آتا ، اسے تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ بدلتے وقت کے ساتھ میڈیا سپر مارکیٹ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ، اب میڈیا پر سب فروغ ہوتا ہے ، الیکٹرانک میڈیا کہ اس دور میں بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کس کا بیانیہ پیش کر رہا ہے ۔ آج میڈیا ہاوس میں اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اخبارات اور خاص کر ٹی وی پر املے کی اغلاط دکھائی دیتی ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا مالکان ایسے افراد ، ادبا یا شعرا کی خدمات لیں اور اردو زبان میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکیں۔اس کانفرنس کے مہمان خصوصی افتخار عارف نے کہا کہ آج کے زمانے میں تلفظ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ میڈیا پر بولے اور لکھے جانے والے الفاظ کو عوام قبول کرتے ہیں اور اسی کو واپس بھی لوٹادیتے ہیں جو معاشرے میں زبان کے حوالے سے بگاڑ کا باعث بن رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور ان کے مالکان کو چاہیے کہ زبان و بیاں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں ۔ اس موقع پر ملک کے معروف دانش ور، پروفیسران ، صحافی ، اہل قلم اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد جس میں معروف افسانہ و کالم نگار زاہدہ حنا ،پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال، ، ڈاکٹر عظمٰی فرمان ، ڈاکٹر صوفیہ خشک، ڈاکٹر صدف فاطمہ، ڈاکٹر ذکیہ رانی ، عامر بشیر، ڈاکٹر افضال احمد سید، پروفیسر ڈاکٹر سید محمد رضاکاظمی، پروفیسر ڈاکٹر تنویر انجم، ڈاکٹر فاطمہ حسن و دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ کانفرنس کے دوسرے روز پہلا سیشن صحافت سے متعلق آج بروز اتوارہوگا جس میں محمود شام ، شاہد قاضی، غازی صلاح الدین ، سلیم مغل ، آصف زبیری، مظہر عباس اور ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی اظہار خیال کریں گےجب کہ دوسرے سیشن شام خسرو میں حضرت امیر خسرو پر مقالوں پیش کیے جائیں گے اس سیشن کی صدارت احمد عبدالباری فرنگی محلی کریں گے جب کہ کلیدی خطبہ پروفیسر ڈاکٹر سحر گل اور اختتامی کلمات سید عابد رضوی پیش کریں گے ۔ کانفرنس کے اختتام پر شامِ خسرو بھی منائی جائے گی جس میں حضرت امیر خسرو پر مقالوں کے علاوہ پاکستان کے نامور اقوال کلامِ خسرو پیش کریں گے۔