کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی کو پانی سپلائی کرنے والا منصوبہ میگا پروجیکٹ K-4 جو پہلے ہی 10 سال سے زائد عرصے سے تاخیر کا شکار ہے اب نئے سرے سے آغاز میں بھی چار سے پانچ ماہ مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔منصوبے میں قانونی، انتظامی پیچیدگیاں دور کرنے کے بعد باضابطہ تعمیرات شروع ہونے کی تصدیق واپڈا حکام نے کی ہے ۔اس منصوبے میں ترکی، آسٹریا سمیت دیگر ممالک کی فرم بھی مدد فراہم کریں گی۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبہ میں تاخیر کا اصل وجہ کسنلٹنٹ کے ڈیزائن کو ویٹ(جانچ پرتال)اور ٹھٹہ ضلع اور ملیر ضلع کراچی میں روٹس کی تبدیلی ہے۔اس ضمن میں پروجیکٹ ڈائریکٹر K-4 عامر مغل نے دو ڈپٹی کمشنرز کو خطوط تحریر کر دیئے ہیں۔منصوبے میں بعض سرکاری زمین کے ساتھ نجی اداروں کی ملکیت اراضی بھی شامل ہیں،جس میں بعض کمپنیوں کو الاٹ کی گئی زمینوں کے علاوہ زراعت اور رہائشی زمینیں بھی شامل ہیں۔ضلع ملیر کراچی کے 23 مقامات پر روٹس میں تبدیلی کر دی گئی ہے،جبکہ ضلع ٹھٹھہ کے 28 مقامات پر کچھ زمینوں کو نئے روٹس میں شامل کیا گیا ہے۔مجموعی طور پر 12 سو ایکٹر اراضی کے تنازعے پر منصوبہ ایک بار پھر تاخیر کا سبب بن سکتا ہے۔منصوبے کے پانچ چینی ٹھیکیدار کے ساتھ 8 مقامی ٹھیکیداروں کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔چینی کمپنی نے اپنے دفاتر، عملے کی تقرری کے علاوہ بھاری مشینری اور اسٹیل پائپوں کی درآمد پر ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔چینی کمپینوں کا PL-1 کا 68 کلومیٹر 52.71 ارب روپے اور 38 کلومیٹر PL-2 کے اخراجات 28,84 ارب روپے میں پریشر پائپ لائنوں کی تنصب کا ٹھیکہ حاصل کیا ہے،جس پر مجموعی طور پر 80 ارب روپے خرچ ہوں گے۔اس بارے میں پروجیکٹ ڈائریکٹر K-4 عامر مغل نے نمائندے سے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبہ کو آن گروانڈ ہونے میں 4 ماہ لگ سکتے ہیں جس میں بعض انتظامی اور قانونی تقاضوں کو پورا کر نا ہے۔جلد اس بارے میں مزید وضاحت کریں گے۔ضلع ٹھٹھہ اور کراچی کی زمین کے حصول میں کئی رکاوٹیں ہیں جن میں 15مقدمات دائر ہوئے تھے،جن میں تین مقدمات خارج ہو چکے ہیں جبکہ دیگر کی سماعت جاری ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رہ جانے والے 12 مقدمات کی فائلیں ملی بھگت سے غائب ہیں۔پانی کے منصوبے K-4 میں 11,396ایکٹر گورنمنٹ لینڈ اور1,053ایکٹر اراضی پرائیویٹ لینڈ سے حاصل کی جائے گی،جن میں صرف 70 کھاتے داروں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔اس بارے میں واپڈا کے ڈائریکٹر لیگل شہزاد آصف کی سربراہی میں ایک ٹیم نگرانی کررہی ہیں جو زمین اور نئے روٹس کے سوال پر کچھ بتانے سے معذروی ظاہر کر رہے ہیں۔ڈپٹی کمشنرز کو خطوط لکھے گئے ہیں جو روٹین کی کاروائی ہے،تاہم منصوبہ کے ڈیزائن کی تجدید کے لئے انٹریشنل فرم کو ٹھیکہ دیدیا گیا ہے۔اس کمپنی کا نام آئی ایل ایف انجینئرنگ کمپنی آسٹریلیا کو ڈیزائن REVIEW کرنے کا ٹاسک دیدیا گیا ہے،جس میں تین سے چار ماہ میں لگ سکتے ہیں۔پہلے بھی منصوبے کے ڈیزائن،نقشے کی تجدید میں تاخیر ہونے پر منصوبہ کٹھائی میں پڑگیا تھا۔121 کلومیٹر طویل گذرگاہ کینجھر جھیل براستہ ٹھٹھہ ضلع تا کراچی کے تین راستوں تک پہنچایا جائےگا۔جن میں دھابے جی،منگھوپیر اور ایسٹ ویسٹ پمپنگ اسٹیشن تک پانی لایاجائے گا۔میگا پروجیکٹ K-4 کے ٹھیکیداروں میں Contractor M/s TES-KGL JV (KIV-IW), M/s Ramzan & Sons (Pvt.) Ltd (KIV-AW), M/s DESCON Eng. Ltd. (KIV-PS), M/s CHEC-AFI JV (KIV-PL1), M/s CHEC-AFI JV (KIV-PL2), M/s CGICOP-MEFA JV (KIV-FP1), M/s ACEG-MPPL-TES JV (KIV-FP2), M/s CGICOP-MEFA JV (KIV-FP3)۔دو پمپنگ اسٹیشن،تین فلٹر پلان،تین پانی کے تالاب بنائے جائیں گے۔اس کے لیئے اسٹیل چین سے خصوصی طور پر درآمد کیاجائے گا۔اسٹیل پائپ سے پانی چوری،ضائع اور غیر قانونی کنکشن کا خطرہ نہیں ہوگا۔یہ اقدام DHA فیز نائن،فضائیہ، اے ایس ایف اور بحریہ ٹاون کراچی میں پانی کی چوری ہونے کی خدشات کے پیش نظر پہلے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ٹیکنو کنسلٹنٹ، ایم ایم پاکستان اور آئی ایل کنسلٹنٹ نےبمشترکہ ڈیزائن کیا ہے۔میگا پروجیکٹ K-4 کی تعمیرات میں سب سے زیادہ خرچہ پریشر پائپ پر ہوگا جو تقریبا” 80 ارب روپے آئے گا،یعنی سول، الیکٹریکل و میکنیکل ورک پر41 ارب روپے،واپڈا کو دیکھ بھال کیلیئے 8 ارب روپے،کنسلٹنٹ کمپنی کو ایک ارب 18 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات 50 سے 55 ارب روپے سے ذیادہ کے نہیں ہیں لیکن اس صورت میں تمام اسٹیک ہولڈروں کو بہت کم کک بیک ملے گا۔کک بیک اور کمیشن تمام اداروں سمیت حکومتی اہلکاروں کیلیئے پہلے ہی طے ہو چکا ہے،جبکہ واپڈا کیلیئے اس منصوبے کی عملدرآمد،نگرانی کے کام کا معاوضہ 8 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ڈیزائن و نقشے میں روٹس کی تبدیلی اورکینجھر جھیل کی ترقی کسی اسٹاک ہولڈر سے مشاورات کے بغیر کی گئی ہے اور یہ جیو گرافک کے بغیر کی گئی ہے۔نیا ڈیزائن و نقشہ عثمانی اینڈ کمپنی کا چربہ قرار دیا جارہا ہے۔پرانے نقشے کو اپ گریڈ کرکے نیا کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ میگا پروجیکٹ 2007ء میں سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔منصوبہ کا پی سی ون 2011ء میں مکمل ہوا۔سندھ حکومت نے 2014ء میں اس کی منظوری دی۔منصوبے کا ٹھیکہ 2016ء میں دیا گیا تھا اور جون 2018ء میں مکمل کرنا تھا۔منصوبہ کی لاگت 12 اور 25 ارب روپے مالیت کے دو ٹھیکے بھی دیئے گئے تھے۔یاد رہے کہ بوگس اسٹڈیز اور سروے کے نام پر دھوکہ،فراڈ اور جعلسازی اس وقت کی کنسلٹنٹ کمپنی عثمانی اینڈ کمپنی نے ناظم کراچی اور گورنر سندھ کی ملی بھگت سے کی تھی جو کراچی اور کراچی کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہا ہے۔پہلے کینجھر جھیل سے مقام A پانی لینے کیلیئے منظور کیا تھا پھر اچانک پلان بی پر منتقل کر دیا گیا تھا اور جب کنٹریکٹر ایف ڈبلیو او نے کام کرنے کاا آغاز کیا تو پلان C کے مقام سے گیٹ وے بنانے کا نقشہ پیش کردیا گیا جس میں کرپشن صاف نظر آرہا ہے لیکن اب کیونکہ نیب کے کے ناخن اور دانت نکال کر بیکار کر دیا گیا ہے اس لیئے اب کرپشن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔