(تحریر* آغاخالد)
کامران ٹیسوری کی بطور گورنر تقرری کامذاق اڑانے والے شہری سندھ یاکراچی دوست ہونے کا دعوا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک رواج بن چکاہے کہ شہری سندھ سے جب بھی کسی شخص کو کوئی بھی پروقار عہدہ تفویض کیا جاتاہے تو اسے فورن تنقید و تنقیص کے نشانہ پر رکھ لیاجاتاہے اور ایسا کوئی غیر نہیں اپنے ہی بے شرمی کی نئی تاریخ مرتب ومدون کرتے ہوے انجام دیتے ہیں سابقہ گورنرز ہی کو لے لیں، ڈاکٹر عشرت العباد کی پرویز مشرف نے تقرری کی تو ہاہاکار مچادی گئی کہ ان پر 13/14 مقدمات ہیں ایسے شخص کو سندھ کا گورنر لگادیا گیاپروپگنڈہ کا شور ایسا کہ پرویز مشرف جیسے طاقت ور ڈکٹیٹر کو بھی متفکر ہونا پڑا کہ مبادا کہیں واقعی کسی جرائم پیشہ کوتو نہیں گورنر لگادیا انہوں نے افواہ سازی کے اس کارخانہ کی مرمت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مینے الزامات کی بھرمار سے پریشاں ہوکر اس وقت کےکور کمانڈر جنرل عثمانی سے رپورٹ طلب کی اور ان سے کہاکہ وہ باریک بینی سے ان الزامات کی جانچ کریں ان کی مثبت رپورٹ کے بعد بھی پروپگنڈہ نہ رکا بلکہ یہاں تک الزامات میں اضافہ کردیا گیا کہ میجر کلیم کیس میں بھی عشرت بھائی کاہاتھ ہے (جبکہ ان دنوں سوشل میڈیاتھا نہ چینلز کی بھرمار) تب بھی انہوں نے اس پروپگنڈہ سے گھبراکر متبادل تحقیق کی خاطر آئی ایس آئی سے ایک سینیر آفیسر کو کراچی بھیجا مگر اس کی رپورٹ سے بھی وہی نتائج برآمد ہوئے،نہ صرف نامزد گورنر پر لگائے گئے تمام الزامات سوفیصد غلط تھے بلکہ ثابت ہواکہ میجر کلیم کیس کے وقت تو وہ ملک میں بھی نہ تھے اسی طرح عظیم انسان دوست شخصیت سراپا ولی حکیم سعید کی تقرری محترمہ بے نظیر بھٹو نے کی تو ان پر بھی تنقید کے تیر برسادیے گئے کہ ایک نباض کو صوبہ کے مسائل کی کیا خبر مطب چلانے والا حکیم صوبہ کیسے چلائے گا وغیرہ وغیرہ فخرالدین جی ابراہیم کے لئے کہاگیا کہ اسے گورنری بھیک میں ملی ہے کیونکہ اس نے جج کی حیثیت سے نواز شریف کے حق میں فیصلے دیے تھے سراپا پیکر شرافت اور وضع دار ممنون حسین کودہی بڑے بیچنے والے کے حوالے سے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا گورنر کاتاج اپنے سرپر سجانے والی آخری شخصیت عمران اسماعیل کومیٹرک پاس کے طعنی دیے گئے یہ سب اردو بولنے والوں میں جہلا کے ایک مضبوط طبقے کاطریقہ واردات ہے انہیں سچ جہوٹ کی تمیز سے سروکار نہیں بس جہالت کا سور پھونک نے کی (جسے وہ بزعم خود ذہانت سمجھتے ہیں) ترنگ میں تمام حدیں پھلانگ جاتے ہیں جبکہ صوبہ کے نئے نامزد گورنر کامران ٹیسوری سے پچھلے دنوں گورنر ہائوس میں ملنا ہوا توان سے غیر رسمی بات چیت میں یہ اطمنان ہواکہ مخالفین کی بدترین بہتان طرازی کے باوجود وہ سندھ کے عموماً اور کراچی کے خصوصاً الجھے ہوے مسائل کے حل کا مسمم ارادہ رکھتے ہیں وہ اپنے خلاف کیے گئے پروپگنڈہ اورتوہین آمیز القابات پر رنجیدہ تو تھے ہی مگر وہ اختیارات کی نمائشی تقسیم وبار تقسیم کےباجود پرعزم نظر آئے کہ کراچی کو ایک بار پھر وہ روشنیوں، رونقوں، رعنائیوں اور تابانیوں کا پرامن شہر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکہیں گے ان سے بات چیت کی تفصیلی خبر پھر سہی فلحال اتنا ہی کہ گورنر ہائوس سے اس اطمنان کےساتھ نکلے کہ کراچی محفوظ ہاتھوں میں ہے اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف اور سلسلہ وہیں سےجوڑتے ہیں جہاں ٹوٹاتھا، جبکہ دوسری طرف وڈیرہ شاہی کے آئڈیل، کتے لڑانے اور پالنے کے حوالے سے شہرت کے حامل ممتاز بھٹو گورنر بنے تو سب کو سانپ سونگھ گیا اور کوئی آواز نہ اٹھی جبکہ قبل ازیں ان کے وزیر اعلی کی حیثیت سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجہ میں صوبہ میں پہلی بار بدترین لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے اور صوبہ کی دو اکائیوں کے درمیان خونریزی ہوئی تھی اسی طرح بظاہر ایک شریف سیاستداں کی حیثیت سے شہرت پانے والے میر رسول بخش تالپور کے شب ہجر کےشوق بھی نرالے تھے پرویز مشرف کے ہی پسندیدہ وزیر اعلی علی محمد مہر وزیر اعلی ہائوس میں ساڑھی پہن کر سمیع کھدڑے کے ساتھ رات بھر ناچ گانا اور جانے کیاکیا افعالِ بد انجام دیا کرتے تھے پس ثابت ہواکہ افعال کے نیک و بد سے سروکار نہیں اصل مسلہ اپنی قوم کی معزز شخصیات کے منہ پرکالک ملناہے اور اس عمل میں ہمارے یہ بھائی لوگ کمال رکھتے ہیں ہم ایسا کرتے وقت کاتبِ تقدیر کے ان آفاقی اصولوں کوفراموش کربیٹھتے ہیں کہ قدرت بھی زندہ قوموں کی قسمت میں یاوری لکھتی ہے جنہیں اپنے اچھے برے کی تمیز نہ رہے وہ پھر فوڈ پانڈا کی ڈلیوری تک محدود ہوجاتے ہیں اے سجنو اے کراچی کے نوجوانو عقل کےناخن لو اور حالات کی سنگینی کوسمجھو؟۔