لاہور (رپورٹ :محمد قیصر چوہان)
فیس بک ، ٹوئٹر ، واٹس ایپ اور ایمو جیسے سوشل میڈیا ٹولز کا پہلا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ہم خیال افراد کو باہمی رابطے کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے، علم کو فروغ دینا ہے مگر تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا طاقتور طبقہ، مذہبی فرقہ پرست حتیٰ کہ جرائم مافیا سوشل میڈیا کے یہ سارے ٹولز پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔اس مذموم پراپیگنڈا مہم میں اندرونی گروہ ہی متحرک نظر آتے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں جاری سیاسی گفتگو اور مباحثوں
گفتگو اور مباحثوں میں پاکستان کی مسلح افواج اور اس کی قیادت کو دانستہ طور پر گھسیٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، حقیقت کے برخلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیاناتث نہایت نقصان دہ ہیں۔ پاک فوج نے متعدد بار واضح کیا ہے کہ ملکی سیاست میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں اور انھیں سیاست میں مت گھسیٹیں، فوج کو سیاسی معاملات سے باہر ہی رکھا جائے۔ ہمارا آئین ہر جماعت کو اپنے جائز حقوق کے لیے پر امن جدوجہد کرنے کی اجازت دیتا ہے ، لیکن مقام افسوس ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین عوامی جلسوں میں ایسے استعارے اور تشبیہات استعمال کرتے ہیں، جن کا مطلب اور ہدف عام شہری بھی سمجھ رہا ہے یہ انتہائی افسوس ناک عمل اور روش ہے۔جو کام ہمیشہ سے ہمارا دشمن سرحد پار بیٹھ کر کرتا آیا ہے، اِس بار ہماری اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ہم خود شروع کر بیٹھے اور پھر دشمن نے اِس مہم کو خوب خوب آگے بڑھایا۔حالانکہ مارچ میں شروع ہونے والے سیاسی بحران میں پاک فوج کی قیادت اور عدلیہ نے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جس سے ملک خانہ جنگی سے بچ گیا اور قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر کارروائی ممکن ہوئی۔ عسکری قیادت کے اسی دانش مندانہ کردار کے باعث ہی سسٹم کسی نقصان سے بچ گیا اور آج جمہوریت کی گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن ہے۔
ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور رسائل جیسے معلوماتی ذرائع پر ہم قواعد و ضوابط کی پابندی کے باعث اخلاق سے گری ہوئی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس آزادی رائے میں کوئی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے ہم اظہار میں شدت پسندی کی حد کو چھو لیتے ہیں۔سوشل میڈیا نے تقریباً ہر بات پر فوری ردِعمل کا رجحان بھی بڑھا دیا ہے۔ ہر نئی خبر یا پوسٹ کی صداقت جانے بغیر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا اور آگے پہنچانا اب ایک ‘فطری عمل بن چکا ہے۔ اس معاشرتی سند کو حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی اخلاقی اقدار بھی بھول جاتے ہیں۔ پھر چاہے کسی کی دل آزاری ہو، کوئی غیر اخلاقی بات ہو یا کسی کو مذہب کے دائرے سے خارج کرنا ہو، ہم اس آزادی رائے کو اپنا حق بلکہ کبھی کبھار اپنا فرض سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔یہ آزادی بہت سے نفسیاتی مسائل میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ خاص کر ہماری نئی نسل ایک مسلسل ذہنی دباو ¿ کا شکار رہتی ہے۔ اس ذہنی دباو ¿ کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کی غرض سے رجحانات کی اندھی تقلید کی جاتی ہے۔ ایسے رجحانات جو کبھی کبھار ذہن قبول نا بھی کرے تو بھی اس وقتی واہ واہ کے لیے انسان یہ سب کر گزرتا ہے۔یہاں صحیح اور غلط کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم اس تکنیکی ترقی کو انفرادی بہتری اور معاشرتی سلجھاو ¿ کے لیے استعمال کر سکیں نا کہ اس سے نفسیاتی مسائل جنم لیں اور شدت پسندی میں اضافہ ہو۔سوشل میڈیا افراد کی باہمی رابطہ کاری، فرینڈشپ، مثبت علمی سرگرمیوں اور انٹرٹینمٹ کا اہم ترین ذریعہ ہے،یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کا دائرہ کار بہت وسیع بلکہ انٹرنیشنل سطح تک ہے۔اسی وجہ سے اس مقبول اور آسان ذریعہ اظہار کو انتہا پسند مذہبی تنظمیوں نے اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا، مختلف مذہبی فرقوں کے علماءاور خود ساختہ مذہبی اسکالر بھی اس میں گھس آئے ، یوں پاکستان کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں زہر اتارنے لگے ، جس سے نوجوان نسل میں نظریاتی اختلافات اور پیچیدگیاں پیدا ہونے لگیں۔اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی دشمن غیرملکی ایجنسیوں کے لوگ بھی اس میں شامل ہوگئے اور اب ملک کی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے میڈیا ونگز بنا لیے ہیں،حالیہ چند ماہ میں اس سلسلے میں خطرناک پیش رفت ہوئی اور سیاسی جماعتوں کے میڈیا ونگز میں چند ایک نے ملک کے اہم ترین اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کو زیر بحث لانا شروع کردیا جو بڑھتے بڑھتے جھوٹے الزامات، کردارکشی اور توہین آمیزی تک پہنچ گیا ہے۔اس عمل کی قطعی حمایت نہیں کی جا سکتی اور نہ اسے درست عمل ہی قرار دیا جا سکتا ہے، ایسا کام کرنے والے یقیناً ریاست کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے،ایسے گروہوں کو قانون کے شکنجے میں لانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست مخالف ڈس انفارمیشن اور پروپیگنڈا پھیلانے والوں نے اس انتہائی مقبول اور کارآمد میڈیا کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل کی نوجوان نسل اور سادہ لوح آبادی بسا اوقات ایسے افراد اور گروہوں کے زیر اثر آجاتی ہے جو انھیں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے جو معاشرے میں نظریاتی اختلافات اور تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی کا ضامن ادارہ اس معاملے پر بار بار توجہ مبذول کرارہا ہے اس کا تو مطلب یہی ہے کہ پروپیگنڈا ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
ہمیں تاحال دہشت گردی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے، اور اسی کی آڑ میں دشمن ہمیں کبھی دہشت گرد ملک قرار دینا چاہتا ہے تو دوسری جانب ڈیپ اسٹیٹ کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے ، ایک منصوبہ بندی کے تحت اداروں اور شخصیات کی کردار کشی کی جا رہی ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پروپیگنڈے کی حکمت عملی تربیت دینے کے لیے جن اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ان میں سوشل میڈیا پر مقامی ذات، برادری اور قبائلی ناموں سے جعلی آئی ڈیز بنانا ، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے لیے صفحات اور گروپ بنانا، سوشل میڈیا پر ٹارگٹ بنائے گئے لوگوں کے لیے اشتہارات بنانا،سوشل میڈیا پر سنسنی خیز مواد لکھوا کر پروپیگنڈا کرنا ، پروپیگنڈے میں تیزی کے لیے تصاویر اور وڈیوز کو گرافکس کی مدد سے بڑھا چڑھا کر سوشل میڈیا پر پیش کرنا ، پوری حکمت عملی کو اپ ڈیٹ پالیسی کے مطابق نئی شکل دینا اور ہدف بنائی گئی نوجوان نسل سے براہِ راست بات چیت کرنا کہ وہ پروپیگنڈا مہم کو ایک عظیم مقصد سمجھ کر اس کا حصہ بنیں، شامل ہیں۔درحقیقت پاکستان مختلف قسم کی قوتوں کی سازشوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ دشمن کی جانب سے کئی محاذ بیک وقت کھولے گئے ہیں۔ مملکت کی شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ مشرقی سرحدوں پر بھی ملک دشمن قوتیں اپنی سازشوں میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ اس نازک صورتحال میں پاکستان کے عوام کو اتحاد اور سیاسی جماعتوں کو ملک کی بقا و سلامتی کے لیے مثبت کردار ادا کرنے لیے سنجیدہ رویہ اپنانا ہوگا۔سیاسی گرما گرمی میں عوام و ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جوانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ یہ وقت سیاسی قلابازیوں کا نہیں بلکہ قومی اتحاد و اتفاق کی مصمم دیوار بننے کا ہے۔قوم کو پاک فوج کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے تمام اداروں کو خاص کر ابلاغ عامہ کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارا آئین ہر جماعت کو اپنے جائز حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کرنے کی اجازت دیتا ہے، لہٰذا سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنا جمہوری حق استعمال کریں۔ سازش، غداری، الزام تراشی اور لعن طعن کرنے کے رویوں سے اغماض برتا جائے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اس کی بہتری، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لیے یک سو ہو کر کام کیا جائے۔حالیہ چند ہفتوں میں حکومتی ایوانوں اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے جو واقعات رونما ہوئے ان سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے جس نے ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تخریبی پروپیگنڈا حکمت عملی کو بروقت اور جارحانہ طور پر مستقل مزاجی کے ساتھ ایک بہترین، جامع، کل وقتی اور نتیجہ خیز حکمت عملی کے ساتھ کاو ¿نٹر کیا جائے۔ اس سلسلے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور اداروں ، سول سوسائٹی، طالب علموں ، صحافتی تنظیموں ، سیاسی جماعتوں اور ان کے ممبران و نمایندگان ، نوجوانان و عوام پاکستان، بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں وغیرہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے جارحانہ انداز میں اس کا جواب دیا جائے۔اس معاملے پر ملک کی سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آکر کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے تاکہ آیندہ قومی سلامتی کے ادارے ایسے پروپیگنڈے کی زد میں آنے سے محفوظ رہیں اور پاکستان کے دشمن بھی اِس معاملے کو عالمی سطح پر اچھالنے میں کامیاب نہ ہو