کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)سندھ ہائی کورٹ کے ڈبل بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (لینڈ اینڈ ایڈمنسٹریشن) کو ہراساں کرنے، انتقامی کاروائی کرتے ہوئے سرکاری مراعات واپس لینے اور تبادلے کا حکمنامہ منسوخ کرتے ہوئے سہیل خان کو عہدے پر برقرار رکھتے ہوئے پچھلے تمام احکامات معطل کردیئے ہیں۔یاد رہے کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سہیل خان ادارہ(MDA) کے مستقل ملازم ہیں۔نئے ڈائریکٹر جنرل MDA نے تبادلے کے بعد سہیل خان کی نہ صرف تنخواہ روک دی بلکہ ان کی گاڑی واپس، پیٹرول بند اور گھر خالی کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔انہیں بلاجواز انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ ملازم کے ریٹائرمنٹ تک سرکاری مراعات واپس نہ لی جا سکتی ہے اور نہ ہی بلا جواز ان سہولیات کو روکا جاسکتا ہے جس کو سروس رولز میں دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے درجنوں حکمناموں میں اسے قانون کی خلاف ورزی قراردیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس آغا فیصل اورجسٹس جیند غفور پر مشتمل ڈبل بینچ نے ایک آئینی درخواست نمبرC,P No,D-6623/2022 نے اپنے حکمنامہ میں ڈائریکٹر جنرل MDA یاسین شر کے تمام اقدمات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جواب 18 نومبر کو طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی جائے۔سہیل خان ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مستقل ملازم ہیں،ان کو محکمہ بلدیات میں رپورٹ کرنے کا حکم غیر قانونی ہے۔درخواست گزار کے وکیل ملک نعیم اقبال ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ سہیل خان کے تبادلہ کا جواز بنا کر ادارہ میں بڑے پیمانے پر تبادلے،منظور نظر افسران کی تعیناتی کے ساتھ مستقل ملازم کے ساتھ انتقامی کاروائی غیر قانونی ہے۔ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل یاسین شر(جو خود غیر مقامی اور کراچی کے باہر سے آئے ہیں) نے سہیل خان کے تبادلہ کو*رجیم چینج*سے تعبیر کرتے ہوئے بارشاہت قائم کر لی تھی۔انہیں ملازمین کی مراعات، سہولیات ختم کرنا کا اختیار نہ تھا تاہم انہوں نے سہیل خان کے خلاف ذاتی دشمنی میں جو مراعات و سہولیات سروس قانون کے تحت ملازم کو حاصل ہیں اس کو انتقامی کاروائی کرتے ہوئے بند یا روک دیا گیا ہے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ تمام غیر قانونی اقدامات اور اس کا حکمنامہ منسوخ کیا جائے۔سہیل خان کو پہلے بھی ڈھائی سال تک کہیں تعینات نہیں کیا گیا تھا اور اس دوران کے ایک منظم انداز میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے تیسر ٹاون اسکیم 45 کی تقریبا” 14 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ کر کے سرکار کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے جس سے تیسر ٹاون کے ساتھ نیوملیر ہاؤسنگ اسکیم کے ہزاروں الاٹیز کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔کراچی سسٹم(لوٹ ما کا سسٹم)اور انتظامیہ کے ساتھ لینڈ گریبرز نے انتظامیہ کی غفلت و لاپرواہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی مجموعی طور پر کھربوں روپے مالیت کی 14 ہزار 4 سو 66 ایکڑ اراضی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے جبکہ اس میں سے قرعہ اندازی اور نیلامی کے ذریعے لوگوں کو الاٹمنٹ کیے گئے 78 ہزار 291 رہائشی پلاٹس پر لینڈ مافیا نے کچے پکے مکانات بنا کر قبضہ کر لیا ہے۔ اس بات کا انکشاف ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے صوبائی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس رپورٹ پر لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی اور اس کا تحفظ کرنے کے بجائے ایم ڈی اے کے اس ڈائریکٹر جنرل کا تبادلہ کردیا جس نے ماہ جون میں اپنی دوبارہ تقرری کے بعد 1180 ایکڑ اراضی لینڈ مافیا سے واہ گزار کروا کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی تھی۔مذکورہ ایم ڈی اے کی زمین پر موجود 78 ہزار 291 رہائشی اور تجارتی پلاٹس میں 80، 120، 240 اور 400 مربع گز کے پلاٹس ہیں جن میں 80 فیصد پلاٹوں کا قبضہ الاٹیز کو دیا بھی جاچکا ہے اور جس پر الاٹیز نے تعمیراتی کام شروع بھی کرا دیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی جی سہیل خان اپنی تین سال کے بعد ایم ڈی اے میں دوبارہ تقرری کے بعد لینڈ مافیا کی سرگرمیوں کو دیکھ کر فوری آپریشن شروع کیا اور 1180 ایکڑ زمین کو مافیا سے خالی کرانے کے ساتھ ہی لینڈ مافیا کے خلاف مزید سخت کارروائی کے لیئے حکام کو خط لکھا جس میں مقبوضہ اراضی کو واگذار کرانے کے واسطے رینجرز،پولیس اور حکومت کے اینٹی انکروچمنٹ سیل کی مدد طلب کی۔ اس درخواست پر حکومت نے مطلوبہ کارروائی کرنے کے بجائے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ دکھانے والے سہیل خان کو عہدے سے ہی ہٹا دیا کیونکہ قبضہ مافیا کی سرپرستی کرنے والوں میں سندھ کی خاتون ڈیفیکٹو وزیر اعلی کا نام سرفہرست ہے۔ان کے تبادلے کے بعد لینڈ مافیا شادیانے بجائے لگے ساتھ ہی مزید زمین پر قبضے کی کوشش میں مصروف ہو گئے،جبکہ دوسری طرف نیو ملیر ہاؤسنگ اسکیم اور دیگر پلاٹوں کے ہزاروں الاٹیز اپنے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب جانے کے خدشات کے باعث شدید تشویش کا شکار ہو گئے ہیں۔عدالت سے بحال ہونے کا حکمنامہ ڈائریکٹر جنرل یاسین شر اور دیگر افسران پر بجلی بن کر گرا ہے،اور افسران نے بھاگ ڈور اور اعلی حکام سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ایک افسر کا کہنا ہے کہ انہیں عدالت سے اتنی جلدی فیصلے کی توقع نہ تھی۔وہ سرکاری افسران کے ساتھ نیو ملیر اسکیم، شاہ لطیف ٹاون اور تیسر ٹاون اسکیم 45 میں الاٹ شدہ اراضی کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ بڑے پیمانے پر قبضہ اور لینڈ مافیا کو غیر قانونی سرگرمیاں کی آزادی دینے کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ اچانک یہ فیصلہ آگیا۔