یہ تھا لاہور کا رہائشی 19سالہ غازی علم دین پیشے کے لحاظ سے ایک بڑھئی تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے انڈیا میں ہونے والے ایک واقعہ نے علم دین کی زندگی میں ہلچل برپا کردی۔ 1923 میں ایک انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک نہایت گستاخانہ کتاب کے نام سے تحریر کی۔ یہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی گئی جسے لاہور کے ایک ہندو پبلشر راجپال نے شائع کیا۔ کتاب میں انتہائی نازیبا باتیں درج تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کی اشاعت سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے اس کتاب پر پابندی کا مطالبہ کیا اور اس کے پبلشر کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ سیشن کورٹ نے راجپال کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کے خلاف اپیل کی۔ سماعت میں مجرم راجپال کو اس وجہ سے رہا کردیا کہ اس وقت مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔
مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں تحریک شروع کردی۔ نوجوان علم دین اپنے دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی وزیر خان مسجد کے سامنے اس ہجوم میں موجود تھا جو ہندو رائٹر راجپال کے خلاف نعرے لگارہا تھا۔ جذبات کا ایک تلاطم تھا جو ہجوم کے نعروں کی گونج میں امنڈ رہا تھا۔ امام مسجد نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ”مسلمانوں شیطان راجپال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے بری کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔“ امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے قریبی دوست رشید سے کیا۔ وہ بھی راجپال کو اس گستاخی کا مزا چکھانا چاہتا تھا۔ دونوں دوستوں نے اس مسئلے پر تین مرتبہ قرعہ اندازی کی اور تینوں مرتبہ علم دین کا نام آیا، آخرکار رشید، علم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اللہ نے یہ سعادت شاید علم دین کے ہی نصیب میں لکھی تھی۔
6 ستمبر 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری خریدکر سیدھا راجپال کی دکان کی طرف روانہ ہوا۔ راجپال ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس کے سینے پر زوردر وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راجپال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور اس پر قتل کا مقدمہ درج کرکے کیس چلایا گیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، کورٹ نے علم دین کو سزائے موت دی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ”مسلمانوں کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ “
31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا۔ علم دین سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ”اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راجپال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے پر واصل جہنم کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔“غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور علامہ اقبال نے ایک مہم چلائی اور آخر کار انگریزوں کو یہ یقین دہانی کے بعد کہ” لاہور میں تدفین کے موقع پر ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی“ اس کی اجازت دے دی گئی۔ 15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔
علم دین شہید کے والد نے علامہ اقبال سے علم دین کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔“غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ عاشق رسول کے جنازے کو کندھا دے۔ علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا ۔ ”ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔“ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے بعد انگریزوں کو قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک نوجوان کی قربانی قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ”پاکستان پینل کوڈ“ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی کم از کم سزا موت رکھی۔