کراچی کے 70 لاکھ سے زائدشہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں
تحریر (حافظ محمد صالح)
کسی خطے میں آبادی کی بنیادی شرط پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ کراچی پاکستان کاسب سے بڑا اور جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ لیکن جدید ترین شہروں میں سے ایک ہونے کے باوجود پانی کی قلت کا شکار ہے۔کراچی ٹینکرز مافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے جس کے سبب شہری بوند بوند پانی کو ترس گئے ہیں۔ پانی کی ضرورت شہری زیر زمین پانی سے اپنے مالی وسائل کی بنیاد پر پورا کررہے ہیں۔ ایک بہت بڑی آبادی بورنگ کے ذریعے پانی حاصل کرتی ہے۔ زیر زمین پانی بعض جگہوں پر اتنا کھارا ہے کہ وہ ناقابل استعمال ہے۔ دس ہزار سے زائد فیکٹریوں کا صنعتی مرکزکراچی ملک کی پچانوے فیصد برآمدات بھی سنبھالتا ہے، اس درجہ بڑی طلب کا مطلب شہر میں پانی کا شدید بحران ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوںوزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں پانی کی چوری روکنے کے لیے وزیربلدیات سندھ ناصرحسین شاہ کی قیادت میں ایک ٹاسک فورس بھی قائم کی تھی جس کے دیگر ارکان میں کمشنرکراچی، ایڈیشنل آئی جی کراچی، واٹربورڈ کے چیف انجینئرز، وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقارمہدی اورنجمی عالم بھی شامل ہیں۔اس ٹاسک فورس نے پولیس، رینجرزاورمتعلقہ انجینئرز کے ساتھ آئندہ مل کرغیرقانونی کنیکشنز،غیرقانونی ہائیڈرنٹس اورپانی کی چوری کرنے والے افرد کے خلاف کارروائی کرنا تھی۔ لیکن یہ ٹاسک فورس بھی کراچی کے شہریوں کا کو قلت آب سے نہیں بچا پائی
کراچی شہر کی آبادی کم وبیش تین کروڑ ہے اور اسے بارہ سو (1200) ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔حب ڈیم سے اسے ایک سو (100) ایم جی ڈی پانی جبکہ دریائے سندھ سے چار سو اسی (480) ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔مجموعی طور پر یہ شیئر 580 ایم جی ڈی بنتا ہے۔ اس طرح کراچی کے 70 لاکھ سے زائدشہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ واٹر بورڈ کی نااہلی اورملی بھگت سے کراچی کا چالیس فیصد پانی چوری ہو جاتا ہے جو بعد میں شہریوں کو مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔کراچی میں اس وقت کم و بیش ایک سو ہائیڈرنٹس ہیں جن میں سے صرف 23 قانونی ہیں ،قانونی اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کراچی کو فراہم کئے جانے والے پانی کا 25 فیصد یعنی 30 ملین گیلن یومیہ حاصل کرتے ہیں۔جو 30 ہزار ٹینکرز کے ذریعے فروخت کیا جا رہا ہے۔واٹر بورڈ کی جانب سے قانونی ہائیڈرنٹس 12 سے 14 گھنٹے یومیہ فراہم کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔لیکن واٹر بورڈ کے بعض افسران کی ملی بھگت سے انہیں بھی 20 گھنٹے سے زائد یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس دو سے اڑھائی کروڑروپے یومیہ آمدن ہے۔پولیس کی سرپرستی میں حب کینال پر بااثر افراد قابض ہو کر ٹینکر مافیا کے ذریعے شہریوں کا پانی شہریوں پر بیچ رہے ہیں۔کراچی میں پانی چوری کے حوالے سے ذرائع نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں، رشوت کے زور پر کون کون منظم انداز میں شہر کا پانی چوری کر رہا ہے۔منگھوپیر میں پولیس کی مبینہ سرپرستی میں جہاں جہاں پانی چوری ہو رہا ہے۔ کراچی کے مضافاتی علاقے منگھوپیر میں کئی مقامات پر یومیہ ہزاروں گیلن پانی کی چوری دھڑلے سے جاری ہے، پولیس فی ٹینکر 300 روپے وصول کر رہی ہے، اور اس طرح یومیہ سینکڑوں ٹینکر پانی کی سپلائی جاری ہے۔حب پمپنگ اسٹیشن اور ملک چانڈیو گوٹھ کے تالاب سے بھی مضر صحت پانی شہر بھر میں بیچا جا رہا ہے۔اگرچہ پانی چور مافیا کے خلاف ماضی میں متعدد مقدمات درج ہو چکے ہیں، تاہم پولیس اور واٹر بورڈ کی جانب سے پانی چوروں کے خلاف کارروائیوں سے واضح گریز نظر آ رہا ہے، محکمہ واٹر بورڈ اور اینٹی تھیفٹ سیل نے پانی چور مافیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
واٹر بورڈ ذرائع کے مطابق کراچی کوملنے والا پانی اگر منصفانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے اور پانی ٹینکرز کی بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جائے تو بہت حد تک مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اس شیئر کا بڑا حصہ چوری ہوجاتا ہے یا پھر پانی کی لائنوں میں رساﺅمیں ضائع ہوجاتا ہے، یوں کراچی کو صرف 415 ایم جی ڈی یا اس سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔واٹر بورڈ ذرائع کے مطابق کراچی کو دریائے سندھ اور حب ڈیم سے ملنے والے پانی کی مقدار کھلی کینال سے آبی بخارات بننے، زرعی اراضی کے لیے پانی کی چوری، پانی کی لائنوں میں رساﺅاور ناکارہ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم کے باعث 165 ایم جی ڈی کم ہو جاتا ہے، اس وقت نیوکراچی،نارتھ کراچی،سرجانی ٹاو ن، نارتھ ناظم آباد، گلستان جوہر،لیاری،کھارادر،بلدیہ ٹاون،شاہ فیصل کالونی،اورنگی ٹان ،گودھراکالونی،فیڈرل بی ایریا، ملیر ، لانڈھی، کو رنگی، گلشن اقبال ،13ڈی ٹو اور تیرہ ڈی تھری، گلستان جوہر، کیماڑی، شاہ فیصل کالونی، محمود آباد، لیاقت آباد، لائنز ایریا، پی ای سی ایچ ایس سمیت دیگر علاقوں کے شہریوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا ڈسٹری بیوشن سسٹم کرپشن کے سبب بھی تباہ حالی کا شکار ہے، پانی کی لائنوں میں رساﺅ، والو آپریشن میں گڑبڑ اور سرکاری ہائیڈرینٹس میں ہونی والی بے قاعدگیاں بھی پانی کے بحران کا سبب ہیں۔شہر میں واٹر بورڈ کے 6 سرکاری ہائیڈرینٹس ہیں جو پیپری، لانڈھی، صفورا، نیپا، سخی حسن اور منگھوپیر میں واقع ہیں، یہ سرکاری ہائیڈرینٹس24 گھنٹے چلتے ہیں جس کے باعث اطراف کے علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس گمبھیر صورتحال کے پیش نظر فوری طور پران ہائیڈرینٹس کا دورانیہ 6 گھنٹے کر دیا جائے اور پانی کی فراہمی کے ناغہ سسٹم پر سختی ومنصفانہ طور پر عملدرآمد کردیا جائے تو بھی بیشتر علاقوں سے پانی کی قلت دور ہوجائے گی اور شہریوں کو پائپ لائنوں کے ذریعے ان کے گھروں کی دہلیز تک پانی کی فراہمی ممکن ہو جائے گی۔
کراچی کے چند ہی علاقوں میں پانی روز کی بنیاد پر گھروں میں آتا ہے ورنہ غریب آبادیاں اور کیا شہر کے پوش علاقے بھی پانی کی قلت سے دوچار ہیں اور پانی خرید کر ٹینکروں کے ذریعے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی میں ٹینکر کے ذریعے پانی بیچنے والے افراد نے ایک مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے یہ لوگ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اور پانی کو بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ پانی ہر جاندار کی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، یہ بے ضمیر افراد اس کی بھی مصنوعی قلت پیدا کرنے سے
باز نہیں آتے۔ پانی کی قلت اور ٹینکر مافیا کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے بھی کیے گئے لیکن اس کا کوئی حل اب تک نہیں نکل سکا اور آج بھی ٹینکر کراچی کی سڑکوں پر دن رات دندناتے پھرتے ہیں ان سے حادثات بھی آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ اور قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چپ تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے ہیں پانی کی قلت پیدا کرنے والے ان لوگوں نے سیاسی قوت بھی حاصل کرلی ہے،سیاسی جماعتیں اور پولیس مل کر یہ کاروبار کررہی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنا اپنا حصہ وصول کررہی ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر ملازمین بھرتی کیے گئے یہ افراد پہلے گلی محلوں میں بھتے کی پرچیا ں بانٹنے کا کام کرتے تھے اب بھی وہی کام کرتے ہیں۔ ایک ایک پمپنگ اسٹیشن پر بیس بیس افراد تعینات ہیں اور حکومت سے تنخواہیں پاتے ہیں جن علاقوں میں پانی پندرہ دنوں اور مہینہ بھر کے بعد آتاہے وہاں ان بھتا خوروں نے اپنے لوگ رکھے ہوئے ہیں جو علاقہ مکینوں سے رقم بٹورتے ہیں اور اس کے عوض پانی دیتے ہیں جو لوگ پیسے دینے سے انکار کرتے ہیں ان علاقوں میں پانی کم فراہم کرتے ہیں یا دیتے ہی نہیں اور بعض علاقوں میں تو پانی سرے سے آتا ہی نہیں۔ یہ بے ضمیر اور ظالم افراد کا ٹولہ اداروں کے اندر بیٹھ کر لاکھوں کی رشوت اکھٹا کررہا ہے۔واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مظالم اور جرائم کی داستان بڑی طویل ہے یہ ادارہ لوگوں سے بل تو وصول کررہا ہے مگر پورے شہر میں جگہ جگہ پائپ لائن ٹوٹی ہوئی ہیں یہ لائنیں نصف صدی پرانی ہیں اور اب تک ان کو تبدیل تو کیا مرمت بھی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان ٹوٹی ہوئی لائینوں سے نالوں اور گٹر کا گندا پانی ان لائینوں میں آجاتا ہے اور پھر یہی پانی لوگوں کے گھروں میں جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ لوگ گردوں کے امراض اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور راستوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
ماضی میںکراچی شہر کے مختلف علاقوں کے مشہور چوک، چوراہوں یا کسی مخصوص میدان یا علاقے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ پہنچ سکیں وہاں واٹر بورڈ کا نلکہ ہوتا تھا۔ اس کے کھلنے کے اعلان شدہ اوقات کار تھے۔ واٹر بورڈ کا وال مین نلکہ کھولتا اور لوگ لائن بنا کر اپنی اپنی کوشش کے مطابق پانی جمع کرکے گھر لے جاتے تھے۔پھر جب ٹینکر کا سلسلہ شروع ہوا تو لائن بنا کر نل سے پانی لینے کا سلسلہ ختم ہوتا گیا، وال مین نے علاقے میں آنا چھوڑ دیا اور نلکے تک آنے والا پائپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ اب لوگ پیسے جمع کرکے ٹینکر بلواتے ہیں اور حسب استطاعت کوئی اپنے گھر کے یرِ زمین ٹینک اور کوئی فائبر کی ٹینکی یا ڈرم میں پانی جمع کرلیتا ہے۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتیں اس طرح کے علاقوں میں پانی کی سپلائی کے مربوط سسٹم کو متعارف کروانے کے اعلانات اور وعدے ضرور کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر صرف کورنگی ہی نہیں بلکہ کراچی کے ایسے اور بھی علاقے ہیں جو فراہمی آب کے سرکاری نظام سے محروم ہیں۔
کراچی میں اس وقت درجنوں کی تعداد میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیںجہاں سے پانی کی چوری اب بھی جاری ہے۔ تاہم اب طریقہ واردات بدل چکا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی اپنی فیکٹری کے لیے ظاہری طور پر چھوٹا کنکشن منظور کروائے لیکن ساتھ ہی زیرِ زمین واٹر بورڈ کی بڑی لائن سے خفیہ کنکشن فیکٹری یا متعلقہ جگہ تک لے آئے۔ اس کے لیے ظاہری طور پر زیرِ زمین پانی نکالنے کی منظوری کا قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے جس میں دراصل پانی واٹر بورڈ کی لائن سے ہی چرایا جا رہا ہوتا ہے لیکن اسے بورنگ کا پانی بتایا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے زیرزمین پانی کا اجازت نامہ جاری کرنے پر پابندی کے بعد اب دھابیجی سے آنے والی لائنوں میں مختلف جگہ پمپ ڈال کر جنریٹر اور موٹر کی مدد سے رات کے اوقات میں بھاری مقدار میں پانی چوری کیا جاتا ہے اور یہ پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چوری کا پانی استعمال کرنے والوں میں مختلف فارم ہاوس اور کیٹل فارم بھی شامل ہوتے ہیں۔ٹینکر مافیا کا ایک طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ کسی ویران علاقے میں پانی کی لائن میں سوراخ کردیا جاتا ہے جہاں سے ہونے والا رساو ¿ قریب موجود کسی بڑے سے گڑھے میں جمع کرلیا جاتا ہے اور پھر ٹینکر سے سپلائی کردیا جاتا ہے۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کا انتظام تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ انگریز سرکار نے شہر کو پانی کی سپلائی کے لیے ڈملوٹی کنڈیوٹ کا نظام متعارف کروایا تھا۔ کنڈیوٹ سے مراد پانی سپلائی کرنے والی ایک بڑی سرنگ سے ہے جس کا سائز مختلف ہوسکتا ہے۔ ڈملوٹی کنڈیوٹ ملیر کینٹ سے شروع ہوکر لائنز ایریا کے علاقے میں واقع ٹیمپل کری ریزوائر (لائنز ایریا میں زیرِ زمین پانی کا ایک بڑا ذخیرہ) تک پانی پہنچاتی ہے۔ ملیر کے گردونواح میں بہت سے کنویں موجود تھے جن سے پانی نکال کر ڈملوٹی کنڈیوٹ کے ذریعے شہر کی جانب بھیجا جاتا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ڈملوٹی کے کنویں خشک ہوتے گئے۔ بعد ازاں واٹر بورڈ نے جامعہ کراچی کیمپس کے اندر سے گزرنے والی 84 انچ قطر کی بڑی لائن سے انٹر کنکٹ کرکے ڈملوٹی کنڈیوٹ میں پانی ڈالنا شروع کردیا جو شہر کے ایک جانب ملیر کینٹ اور دوسری طرف لائنز ایریا تک جاتا ہے۔ لائنز ایریا کے بڑے ذخیرہ آب سے سپریم کورٹ رجسٹری اور برنس روڈ تک اور دوسری طرف ایف ٹی سی بلڈنگ، شاہراہ فیصل کے اطراف کے علاقوں تک پانی سپلائی ہوتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کو فراہمی آب کے لیے صرف ڈملوٹی کنڈیوٹ موجود تھی۔ 1957ءمیں پہلی مرتبہ کراچی کے لیے پانی کا کوٹہ تجویز کیا گیا جس کے مطابق دریائے سندھ سے 242 ملین گیلن روزانہ ربیع کے موسم میں جبکہ خریف کے موسم میں 280 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جانا تھا جو تقریباً 475 کیوسک بنتا ہے۔1957ءسے 1988ءتک یہ صرف ایک تجویز ہی رہی اور اس پانی کی فراہمی کے لیے کوئی عملی کام نہیں ہوسکا تھا۔ 1988ءمیں صدارتی حکم نامے کے ذریعے جنرل ضیا الحق کے دور میں پہلی مرتبہ گریٹر کراچی منصوبہ برائے فراہمی آب شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت روزانہ سپلائی کا کوٹہ 1200 کیوسک مختص کیا گیا۔ اس منصوبے پر مکمل عمل درآمد سال 2006ءمیں پانی کی سپلائی کے منصوبے کے 3 کی تکمیل کے بعد ممکن ہوسکا۔اس وقت واٹر بورڈ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کو 562 ملین گیلن پانی کی سپلائی درکار ہے جس میں سے 472 ملین گیلن پانی دریائے سندھ اور کینجھر جھیل سے بذریعہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن اور باقی 90 ملین گیلن حب ڈیم سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں بارشوں کی صورتحال کے مطابق اس میں کمی ضرور ہوجاتی ہے۔اگر کراچی کی موجودہ ضرورت کا جائزہ لیں تو ایک کروڑ آبادی کے لیے روزانہ تقریباً 550 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہوگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی اس وقت 2 کروڑ سے زائد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی کو روزانہ ایک ہزار 600 ملین گیلن پانی کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا، اور اس وقت کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر پانی کی قلت تقریباً ایک ہزار ملین گیلن ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب کتنا ہی اچھا سپلائی سسٹم موجود کیوں نہ ہو، جب تک ضرورت کے مطابق پانی سپلائی نہیں ہوگا قلت یونہی برقرار رہے گی۔ پانی کی ضرورت کے عالمی پیمانے کو دیکھا جائے تو فی کس پانی کی طلب 54 گیلن ہے۔کراچی کو پانی کی فراہمی دریائے سندھ اور حب ڈیم سے کی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کا پانی پہلے کینجھر جھیل میں جمع کیا جاتا ہے جہاں سے کینال کے ذریعے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن تک لایا جاتا ہے۔ دھابیجی سے 72 انچ قطر کی 10 لائنیں 200 فٹ بلند مقام ’فور بے‘ تک پانی پہنچاتی ہیں۔ فور بے کے مقام سے یہ پانی کشش ثقل کے ذریعے نارتھ ایسٹ کراچی سپر ہائی وے پلانٹ پہنچایا جاتا ہے۔ دھابیجی سے نارتھ ایسٹ پہنچنے کا دورانیہ 24 گھنٹے ہوتا ہے۔نارتھ ایسٹ کراچی پلانٹ جسے ’این ای کے‘ کہا جاتا ہے وہاں ’کے 2‘ فلٹر پلانٹ موجود ہے۔ اسی جگہ پر این ای کے اولڈ اور نیو پمپنگ اسٹیشنز بھی ہیں۔ این ای کے سے ایک پمپنگ اسٹیشن جامعہ کراچی کے سامنے بنے ہوئے بڑے ذخیرہ آب تک پانی پہنچاتا ہے اور وہاں سے پانی سی او ڈی فلٹر پلانٹ عقب بیت المکرم مسجد تک چلا جاتا ہے۔ فلٹر ہونے کے بعد پانی اب شہر بھر کو سپلائی کیا جاتا ہے۔شہر کے دوسری جانب این ای کے سے پمپنگ کے ذریعے ضلع وسطی اور غربی کے مختلف علاقوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ کراچی کو پانی کی سپلائی میں ایک چھوٹا سا حصہ جو 22 ملین گیلن ہے وہ گھارو فلٹر پلانٹ کا بھی ہے۔ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 145 ملین گیلن پانی پپری پمپنگ اسٹیشن پر بھیجا جاتا ہے۔ لانڈھی قائد آباد تک 54 انچ قطر کی 2 لائنیں ہیں جن میں سے ایک لانڈھی کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہوئی ڈیفینس ویو تک آتی ہے اور یہاں پر ڈیفنس کا پمپنگ اسٹیشن موجود ہے جسے واٹر بورڈ طے شدہ معاہدے کے تحت 80 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری لائن ملیر تک پانی سپلائی کرتی ہے۔حب ڈیم سے سندھ کو پانی سپلائی کرنے کا دار و مدار بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں پر ہے۔ حب ڈیم میں صرف بارش کا پانی ہی جمع ہوتا ہے جسے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں کو سپلائی کردیا جاتا ہے۔ حب ڈیم سے نکلنے والی حب کینال سے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک پانی آتا ہے جہاں روزانہ 80 ملین گیلن فلٹر شدہ اور 20 ملین بغیر فلٹر پانی کراچی کے 4 ٹاونز کو سپلائی کیا جاتا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔شہر بھر میں پانی کی سپلائی کے لیے ایک مکمل اور جدید نظام کی ضرورت ہے جس کے لیے خطیر رقم درکار ہوگی۔ اس وقت ہمارا سارا بجٹ فرسودہ اور ناقص نظام کو چلانے اور تھوڑی بہت دیکھ بھال پر ہی خرچ ہوجاتا ہے۔ پانی کی تقسیم کے نئے نظام کے لیے پیسہ موجود نہیں ہے اس لیے عارضی بنیادوں پر ٹینکر سسٹم شروع کیا گیا تھا تاکہ اگر سپلائی لائن ڈالنے میں تاخیر ہے یا بہت سے علاقوں میں سپلائی لائن موجود نہیں تو پھر ان ٹینکروں کے ذریعے پانی سپلائی کیا جاسکے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے واٹر کمیشن نے ابتدا میں نئے بلڈنگ منصوبوں کے لیے واٹر بورڈ کی اجازت کو لازمی قرار دیا تھا لیکن اس سے تعمیراتی صنعت بحران کا شکار ہوکر تقریباً بند ہونے کے نزدیک پہنچ گئی تھی۔شہر میں پرانا سپلائی سسٹم جان بوجھ کر بھی خراب کیا گیا تاکہ ٹینکر چلتے رہیں اور بے حساب آمدن ہوتی رہے۔ اب واٹر کمیشن کے بعد ہر ضلع کا ایک ہائیڈرینٹ ہے جہاں واٹر بورڈ کے میٹر کے ساتھ 48 انچ قطر کی لائن سے نکلنے والا 6 انچ کا کنکشن ہوتا ہے جہاں سے ٹینکر بھر کر پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں پانی بھیجا جاتا ہے۔اس وقت ہائیڈرینٹ کو سپلائی کیا جانے والا پانی شہر کو ملنے والے کل پانی کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ سادہ الفاظ میں 20 فیصد پانی ٹینکر کے ذریعے تقسیم ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے ٹینکر ہائیڈرینٹس سے پانی بھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہاں نجی ٹینکر سروس کے نام پر من پسند قیمت پر لوگوں کو پانی سپلائی کردیا جاتا ہے۔ اس کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں فوری ٹینکر مطلوب ہوتا ہے اور وہ آن لائن بکنگ اور پھر انتظار کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔
کراچی میں پانی کے بارے میں آخری منصوبہ K-4 کا آغاز نعمت اللہ خان نے کیا تھا جو 14 برس بعد بھی مکمل نہیں ہوسکا۔اگر کے-4 منصوبے کو ہی دیکھا جائے تو اس کی منظوری 2011ءمیں مصطفیٰ کمال کے دور میں ایکنیک سے ہوچکی تھی لیکن کام بس کاغذوں میں ہی ہوتا رہا۔ کے-4 منصوبے کے 3
فیز تھے جنہیں 2015ءسے 2019ءکے دوران مکمل ہوجانا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اب بھی اس بحث میں مزید تاخیر ہو رہی ہے کہ وفاق اور سندھ میں سے کون کتنا بجٹ دے گا اور یہی تعین نہیں ہوتا کہ تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟متعدد مرتبہ کے-4 کے روٹ کو تبدیل کیا جاچکا ہے جس سے تاخیر در تاخیر ہو رہی ہے۔ کے-4 منصوبے سے تقریباً 120 کلو میٹر طویل 2 سے 3 بڑی کینال کے ذریعے تقریباً 650 ملین گیلن پانی روزانہ کراچی کو سپلائی ہونا ہے جس کے آخری سرے پر پمپنگ اسٹیشن بھی ہوں گے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر کے-4 اگلے 3 سے 5 سال میں مکمل ہو بھی جاتا ہے تو اس دوران کراچی کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہوگی اور پانی کی قلت برقرار رہے گی۔ پھر کے-4 کے ساتھ کے-5 بھی شروع کرنا ہوگا۔اس وقت کراچی میں پانی کی یومیہ قلت 400 ملین گیلن ہے۔وسری جانب شہر میں موجود پانی کی سپلائی کے سسٹم پر بھی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بوسیدہ پانی کی لائنیں تبدیل کرنا ہوں گی تاکہ ضائع ہونے والے پانی کو استعمال میں لایا جاسکے۔ آہستہ آہستہ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی لائن ڈالنا ہوگی جس کے لیے سالانہ ایریا ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واٹر بورڈ کے ڈیفالٹرز میں عام آدمی سے لے کر بہت سے خواص کا نام بھی آتا ہے اور فہرست میں سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ اگر صرف سرکاری ادارے ہی ادائیگی کو یقینی بنا دیں تو شہریوں کے لیے بہت سی سہولیات پیدا ہوسکتی ہیں ورنہ پانی کی قلت کا رونا تو ہمیشہ ہی جاری رہے گا۔