اسلام آباد(نیٹ نیوز) معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کو کینیا میں ’قتل کردیا گیا ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔معروف صحافی و سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا ہے کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں اپیل کی کہ ’ہماری پرائیویسی کا احترام کریں اور بریکنگ نیوز کے نام پر برائے مہربانی ہماری فیملی کی تصویریں، ذاتی تفصیلات اور ارشد شریف کی ہسپتال میں لی جانے والی آخری تصاویر شیئر نہ کریں‘۔دونوں ممالک کے حکام نے تاحال ارشد شریف کی موت اور اسباب کی تصدیق نہیں کی ہے، چند پاکستانی میڈیا ہاؤسز نے پہلے اطلاع دی تھی کہ ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کیا گیا ہے لیکن بعد میں کہا گیا کہ ان کی موت ایک حادثے میں ہوئی۔دریں اثنا کینیئن میڈیا کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کی ہلاکت کا واقعہ پولیس کی جانب سے ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔کینیا کی مقامی ویب سائٹ ’دی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے
واضح رہے کہ ارشد شریف موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے شدید ناقد تھے، رواں برس کے آغاز میں مختلف شہروں میں ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے تھے جس کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے۔پاکستان میں ارشد شریف طویل عرصے تک نجی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ سے منسلک رہے، اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال نے بھی اس حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’مجھے اب تک اس خبر پر یقین نہیں آرہا، میرے پاس کہنے کو کوئی الفاظ نہیں رہے، اللہ ارشد شریف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے‘۔ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار نے کہا ہے کہ کینیا میں پاکستانی ہائی کمیشن حکام سے معلومات حاصل کر رہا ہے۔
معروف صحافی کے انتقال پر ان کے ساتھیوں، صحافی برادری اور سیاستدانوں کی جانب سے اظہار تعزیت کیا جارہا ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ارشد شریف کی وفات کو صحافت اور پاکستان کے لیے عظیم نقصان قرار دیتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ارشد شریف کی روح کو سکون ملے اور اللہ ان کے خاندان اور چاہنے والوں کو اس نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ دے‘۔وزیر اعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کے اہلِ خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’صحافی ارشد شریف کی المناک موت کی خبر پر شدید افسردہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائےاے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن کاشف عباسی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’میرے بھائی، میرے دوست، میرے ساتھی ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، میں اب بھی یقین نہیں کر سکتا، یہ خبر دل ٹوٹنے سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے، یہ بہت غلط اور تکلیف دہ ہے‘جیو نیوز کے اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ وہ یہ افسوسناک خبر سن کر انتہائی دکھی ہیں
ہم نیوز کی اینکر پرسن مہر بخاری نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ارشد شریف اب نہیں رہے، وہ صرف ایک ساتھی نہیں بلکہ بھائی کی طرح تھے، اسلام آباد سے ماسکو تک، دنیا نیوز سے اے آر وائی تک، میں نے ان جیسا مہذب انسان نہیں دیکھا، بہت کم عمری میں بہت بے دردی سے انہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا‘سینیئر صحافی کامران خان اور شہباز رانا نے ارشد شریف کی وفات اور ان کو قتل کیے جانے کے دعووں کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر، سینیٹر اعظم سواتی اور اسد قیصر نے بھی ارشد شریف کی موت کی خبر پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیاواضح رہے کہ رواں برس پولیس نے ارشد شریف، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال، نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز کے سربراہ عماد یوسف، اینکر پرسن خاور گھمن اور ایک پروڈیوسر کے خلاف 8 اگست کو پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے چینل پر نشر کیے گئے ایک متنازع انٹرویو پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔ایک روز بعد وزارت داخلہ نے اس فیصلے کی وجہ کے طور پر’ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس’ کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا این او سی کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا تھا اور اس کے بعد ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔بعد ازاں ’اے آر وائی نیوز‘ نے کوئی خاص وجہ کا حوالہ دیے بغیر اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ارشد شریف سے ‘راستے جدا’ کرلیے ہیں اور توقع ظاہر کی تھی کہ سوشل میڈیا پر ان کے ملازمین کا رویہ ادارے کے قواعد کے مطابق ہو۔