تحریر:امتیاز متین
اکیسویں صدی میں شروع ہونے سے پہلے جن تبدیلیوں اور عالمی امن و خوشحالی کے دعوے کیے جا رہے تھے وہ سب ٹریڈ ٹاورز کے ساتھ ہی فناہو گئے ۔ اس واقعے کے بعد جنگوں کا دور شروع ہوا اور دنیا ویسی نہیں رہی جیسی 9/11 سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ عالمی نظام میں تبدیلی کا دوسرا کووڈ 19 کے لاک ڈائون کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ 2020ء میںعالمی وبا آئی اور گزر گئی لیکن دنیا کا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام بد گئی۔ پرانے نظام کی شکست و ریخت کا مطلب یہ ہے کہ اب آزمودہ نسخوں کی کامیابی یقینی نہیں رہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ پہلے حکومتوں کی ہر بات اور ہر دلیل پر آنکھ بند کرکے یقین کر لیا کرتے تھے لیکن نئی نسل کو دلیل سے قائل کرنا پڑتا ہے یا پھر وہ خود تین چارآزاد ذرائع کی رائے جان کر فیصلہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں بدلتے عوامی رجحانات
شاید یہ کووڈ 19 کے بعد شروع ہونے والے نئے دور کا ہی اثر ہے کہ پاکستان میں لائی جانے والی سیاسی تبدیلی کو لوگوں نے تسلیم نہیں کیا حالانکہ یہ تبدیلی لانے کے لیے آزمودہ مہرے اور آزمودہ نسخے اپنائے گئے تھے۔ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ اور اراکین اسمبلی و سینیٹ کے ووٹوں کی خرید و فروخت تو عشروں سے ہو رہی ہے لیکن اس بار ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کو قابل مذمت اور قابل ملامت فعل قرار دیا گیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے باوجود شہباز شریف اور ان کی لمبی چوڑی وفاقی کابینہ میں شامل وزرا کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ عام شہریوں کی نظر میں ان کی کوئی عزت اور وقعت نہیں رہی ہے۔ سر عام ذلت اٹھانے اور زبردستی معافیاں منگوانے کے باوجود حکمرانوں کی عزت بحال نہیں ہو سکی ہے بلکہ عوامی مقامات پر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ وہاں کوئی بھی عام شہری ایسا چبھتا ہوا سوال داغ دیتا ہے کہ وہ اپنی بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موبائل فون کیمرا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کہ لوگ ویڈیوز بنا کرفوراً اپ لوڈ کر دیتے ہیں جہاں سے پاکستان کا ریگولر میڈیا اٹھا کر وہ خبر چلا دیتا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈارکو واشنگٹن ڈی سی ایئر پورٹ پرسر عام ذلیل و رسوا ہونا پڑا ہے اور کسی پاکستانی پر رعب جھاڑنے والے سفارتخانے کے سیکورٹی اسٹاف ممبر کو بھی منھ در منھ گالیاں کھانا پڑی ہیں ۔
ان دنوں پاکستان میں جس قسم کی غیر اعلانیہ ایمنسٹی اسکیم پر کام ہو رہا ہے اس میں وہ سارے نامی گرامی چور اُچکّے، دودھ کے دھلے بن رہے ہیں۔ قوم کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے کہ جن لوگوں پر سنگین بدعنوانیوں اور اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے تھے انہیں عدالتوں سے فوری رہائی کیسے نصیب ہو رہی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اربوں روپے کے ڈاکے مارنا جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ کل تک جو چور اور غدار کہلاتے تھے وہ اب وزاتوں اور سفارتوں کے کام کر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب اتنا ہی آسان ہوگا کہ ہڑپ شدہ قومی دولت کو ایک قانون سازی کے ذریعے چوری کرنے والے کی ملکیت قرار دے دیا جائے کہ اس نے یہ رقم چوری کرنے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ نیب کے واپس کیے ہوئے مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ میں کی جائے اور وہاں خائن حکمرانوں سے ختم کروائے گئے کیسز میں شامل دولت کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے کہا جائے۔
سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کا جج، ایک عام سرکاری افسر کو طویل غیر حاضری کی بنیاد پر تنخواہ سے کٹوائے گئے پروایڈنٹ فنڈ، پنشن اور دوسرے فوائد سے محروم کرنے کے احکامات جاری کر سکتا ہے تو پھرسنگین بدعنوانیوں میں ملوث افراد کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کی تنخواہ سے کاٹ کر جمع کروائے گئے پیسے بھی بحق سرکار ضبط کروا سکتا ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں انصاف معیارات مقرر نہیں ہیںبلکہ بعض فیصلوں پرشاید سیاسی، صوبائی، علاقائی اور لسانی عصبیت اور بیرونی قوتیں غالب آ جاتی ہیں ۔ قومی سیاست میں آڈیو لیکس کے تماشے سے صرف وہی لوگ بدنام نہیں ہو رہے جن کی گفتگو عام شہریوں کو سنائی جا رہی ہیں بلکہ یہ آوازیں ریکارڈ کروانے اور جاری کروانے والوں کو بھی اس کھیل میں کوئی نیک نامی نہیں مل رہی ہے۔ اگر آڈیو کے بعد ویڈیو لیکس ہونا شروع ہو گئیں تو پھر پاکستان کی نئی نسل کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی رکھنے والے نئے پورنو اسٹارز کے بارے میں بھی معلوم ہو جائے گا۔
دنیا میں ایک طرف جہاں لوگوں کو شعوری طور پر کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہیں دنیا کے مختلف ملکوں میں بیداری کی لہریں بھی اٹھ رہی ہیں۔ عوامی شعور اور بیداری کے نتیجے میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ سیاسی، سماجی اور معاشی جبر کے فرسودہ اور بدعنوان نظاموں سے جان چھڑا لی جائے لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کی بھی واپسی ہو جائے گی۔ کم از کم شہری سندھ میں پی ٹی آئی کا زور توڑنے کے لیے متحدہ ایم کیو ایم کو دوبارہ مہاجر عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔لیکن اگر یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
حکمراں طبقات کی ہمیشہ ہی سے یہ خواہش رہی ہے کہ عوام کو بے خبر رکھا جائے۔بصورت دیگر تشدد، ہراسانی، جھوٹے مقدمات کے ساتھ معاشی دبائو میں لانے کے لیے روزگار کے دروازے بند کروا دیے جائیں۔ سندھ پنجاب کے غریب غربا پر وڈیروں اور جاگیرداروں کے جبر و تشدد اور نجی قید خانوں میں بند غریب خاندانوں سے متعلق خبریں شائع ہوتی رہی ہیں بلکہ حالیہ برسوں کے دوران سیاسی وڈیروں کے غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کرنے والے غریب صحافی قتل بھی ہوئے ہیں۔پنجاب میں جو عام شہری جاگیر دار نہیں ہیں وہ اپنے گھر میں کام کرنے والی کمسن ملازمائوں کے ساتھ مار پیٹ اور بات بے بات انہیں بے عزت کرکے اپنی انا کو تسکین دے لیتے ہیں۔
سعودی عرب میں سماجی اصلاحات
پاکستان کے حکمراں طبقات اپنی ناک سے آگے تو کچھ نظر آتا نہیں ہے اس لیے وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معاشرتی تبدیلی کا عمل صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان سے زیادہ قدامت پرست معاشروں اور شہریوں پر سخت کنٹرول رکھنے والے اسلامی ممالک میں بھی ہو رہا ہے ۔اس معاملے میں سعودی حکمراں زیادہ سمجھدار ثابت ہوئے ہیں جو انہوں نے بادشاہت کو بچانے اور سعودی معاشرے میں پائی جانے والی مایوسی اور غصے کو ختم کرنے کے لیے فرسودہ قوانین اور سماجی طور طریقوں میں تبدیلیاں کرنا شروع کر دی ہیں۔گزشتہ دو عشروں کے دوران سعودی حکومت نے خاص طور پر اپنے نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم پر خصوصی توجہ دی ہے اور انہیں سرکاری خرچ پر امریکہ اور یورپ پڑھنے کے لیے بھیجا ہے، جہاں سے وہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ نسبتاً کھلے سماج کے طور طریقے بھی سمجھ کر آئے ہیں
یہ صحیح ہے کہ سعودی عرب میں خواتین اپنے اوپر عائد سماجی اور قانونی جبر سے آزادی کے لیے برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے پہلے سعودی معاشرے میںزیادہ تعداد میں نکاح اور طلاق کے عام رواج کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی جس کے انہیں خادمین حرمین شریفین کی حمایت حاصل تھی ۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے تھے کہ عدالت نے ایس ایم ایس کے ذریعے تین بار طلاق لکھ کر بھیج دینے پر بھی طلاق تسلیم کر لی تھی۔ سعودی عرب میں خواتین کے ڈرائیونگ پر پابندی تھی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں کئی لڑکیوں نے قید اور جرمانے بھی برداشت کیے لیکن کٹر اسلامی رائے کو پس پشت ڈال کر سعودی حکومت کو خواتین کے ڈرائیونگ کرنے اور تنہا سفر کرنے اوردفتروں میں ملازمت کے حق کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح مذہبی حلقوں کی مخالفت کے باوجود برقع اوڑھنے کی قانونی پابندی بھی ختم کی گئی ہے جس کے بعد ریاض کے بازاروں میں بھی بے نقاب اور مغربی لباس میں ملبوس خواتین نظر آنے لگی ہیں۔
سعودی عرب میں سینما تو برسوں پہلے کھول دیے گئے تھے۔ سعودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2030ء تک ملک بھر میں 2600 سینما کھولے جائیں گے۔ چند سال پہلے تک سعودی عرب میں فلم بنانے اور سینما کا کوئی تصور نہیں تھا۔ دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب میں بھی میوزیکل کنسرٹس ہونے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سعودی حکمرانوں کو یہ نظر آ رہا تھا کہ سعودی عرب میں جو سماجی آزادیاں نہیں ہیں ان کا لطف لینے کے لیے سعودی باشندے خلیجی ریاستوں کا رخ کرتے ہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ سعودی عرب میں بھی لوگوں کوایسی سماجی آزادیاں دے دی جائیں جو دوسرے عرب ملکوں میں عام ہیں۔
ایران میں حکومت مخالف تحریک
سعودی عرب کے برعکس ایران میں آرٹ، فلم اور سینما کی تاریخ بہت مضبوط ہے حتیٰ کہ اسلامی انقلاب کے باوجود ایرانی فلم اور سینما کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایرانی شہری، اسلامی انقلاب کے بعد ہمیشہ یہی سوچتے رہے ہیں کہ ایران پر ہمیشہ ملائوں کی حکومت نہیں رہے گی اس لیے ہم اپنی تہذیب، ثقافت اور آرٹ کو محفوظ رکھیں۔ باوجود اس کے کہ ایران میں حکومتی جبر کا شکنجہ، سوویت کے جی بی کی طرح زیادہ سخت ہے لیکن اس کے باوجود ہر چند برسوں بعد وہاں حکومت مخالف ہنگامے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ اس بار وہاں کی مذہبی پولیس کی کارکردگی کی وجہ سے جو ہنگامے شروع ہوئے ہیں وہ اب حقوق نسواں کی بین الاقوامی تحریک بنتے جا رہے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں میں خواتین نے نہ صرف اپنے حجاب اتار کر جلا ئے ہیں اور اپنے بال بھی کاٹ کر پھینک دیے ہیں۔
یہ سارا تنازع ایک 22 سالہ کرد لڑکی مھسا امینی کے درست طریقے سے حجاب نہ اوڑھنے پر گرفتاری اور اس کی زیر حراست حالت خراب ہونے اور ہسپتال میں جاں بحق ہونے سے شروع ہوا ہے۔ مھسا امینی اپنے گھر والوں کے ساتھ تہران گھومنے آئی تھی جہاں مذہبی پولیس نے اس کے اسکارف اوڑھنے کے طریقے پر اعتراض کیا تھا اور تھوڑی سی بحث کے بعد اسے زبردستی حراست میں لے کر اپنی بس میں پھینکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس بس میں ڈالے جاتے وقت ہی اس کے سر میں چوٹ لگی تھی اور تھانے لے جاتے ہوئے اس پرمزید تشدد کیا گیا تھا۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ اگر وہ لڑکی کرد کے بجائے فارس ہوتی تو مذہبی پولیس کا رویہ بالکل مختلف ہوتا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مھسا امینی کو تھانے میں دل کا دورہ پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے ہنگامی طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ کوما میں رہی اور تیسرے دن زندگی کی بازی ہار گئی۔ یہ خبر سن کر ایران پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور پھر ایران کے طول و عرض میں ہنگامے اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میںتا دم تحریر 19 بچوں سمیت 185 مرد اور خواتین ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں ایرانی بلوچستان سیستان میں ہوئی ہیں جہاں بچوں سمیت 80 مظاہرین اور تماشبین سیکورٹی فورسز کی فائرنگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں میں شامل ایک سترہ سالہ ولاگر لڑکی نیکا شکارامی غائب ہوئی تھی جس کی لاش ایک ہفتے کے بعد اس حال میں ملی تھی کہ اس کی ناک، گردن اور سر کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، قیاس کیا جا رہا ہے کہ اسے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے قتل کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پولیس نے نیکا شکارامی کی لاش اپنے قبضے میں لے کر کسی نا معلوم مقام پر دفنا دی ہے جبکہ اس کے والدین حکومت سے اس کی قبر کا پتا پوچھ رہے ہیں۔ اس معاملے پر جب یورپی ٹی وی چینلز نے وہاں موجود ایرانی ایکٹیوسٹس سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ انقلاب مخالف لوگوں کی جبری گمشدگیاں، زیر حراست ہلاکتیں اور مقتولین کی نامعلوم مقام پر تدفین کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم وہ اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر تھے کہ ایران میں اٹھنے والی اس تحریک کا کیا نتیجہ نکلے گا
ایرانی حکومت کی خواہش ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہنگاموں کی شدت میں کمی آ جائے اورمتحرک عناصر کو ریاستی طاقت استعمال کرکے کچل دیا جائے یا والدین کو سنگین نتائج سے ڈرا کر بچوں کو اپنے گھروں میں میں رکھنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن جیسے جیسے ملک میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ ساتھ گرفتار شدگان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے ایرانی نوجوانوں کا غصہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ حجاب کے خلاف شروع ہونے والی تحریک پہلے حقوق نسواں کی تحریک بنی اور اب وہاں ’’مرگ بر ڈکٹیٹر‘‘ کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ جس میں اب یونیورسٹی کے طلبا کے بعد اسکول کی طالبات بھی شامل ہو چکی ہیں جو نہ صرف اسکارف پہننے سے انکار کر رہی ہیں بلکہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج بھی کر رہی ہیں۔ اس دوران کچھ ایسی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جس میں اسکول کی طالبات اپنی کلاس میں لگی ہوئی آیت اللہ خمینی اور خامنائی کی تصویر کو ہاتھ کی درمیانی انگلی اٹھا کر دکھا رہی ہیں۔ ایرانی حکومت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے کہ کمسن لڑکیوں سے کیسے لڑے اور انہیں کیسے سمجھائے کہ ایران میں ہونے والی بدامنی اور احتجاج کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کی سازش ہے، جو ایران میں اسلامی انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت اور قرآن کا نظام ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کمسن ایرانی طالبات کا کہنا ہے کہ ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار آیت اللہ کی جابرانہ پالیسیاں ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے کہ ایرانی نوجوان آیت اللہ خامنائی کی جگہ جگہ لگی ہوئی تصاویر پھاڑ کر پھینک رہے ہیں اور ان کے مجسموں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جس ملک میں حکمرانوں کو جگہ جگہ اپنے مجسمے اور بڑی بڑی تصاویر لگانے کی ضرورت پڑ جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور وہ اپنے جبر کے نظام کی وجہ سے مسلط ہیں۔حالیہ ہفتوں میں جس طرح ایران کے ہر طبقے نے اس ایرانی حکومت اور مذہبی پولیس کی مذمت کی ہے اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ایرانی عوام، انقلابی حکومت اور اس کے جابرانہ نظام سے نالاں ہیں۔
جب ایران پر مذہبی قوتوں کا غلبہ ہوا تو لاکھوں ایرانی ملک سے فرار ہو کر مغربی ممالک میں آباد ہونے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن جو انقلاب مخالف لوگ ایران چھوڑ کر نہیں جا سکے تھے ان کا معاشی مقاطع کیا گیا۔ ان پر اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔ جس کے بعد بہت سے لوگ شہروں کو چھوڑ کر اپنے آبائی گائوں میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ لیکن ایران کے انٹیلی جنس اداروں نے ان پر بھی نظر رکھی ہوئی تھی۔ یہ جو ایرانی حکومت اچانک تہران میں لاکھوں کے اجتماعات اور جلسے جلوس کر لیتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے حامیوں کے علاوہ ایسے عام شہری بھی مجبوراً شامل ہوتے ہیں جن کے گھروں پر پاسداران کے نمائندے لازمی شرکت کا پیغام بھجوا دیتے ہیں۔شاید اسی نظام کی وجہ سے ان دنوں ایران کی سڑکوں پر حکومت کی حمایت میں بھی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔
عراق میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ 7 جنوری 2020ء کو کرمان میں نکلنے والے سوگوار جلوس میں بھگدڑ مچ جانے 56 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ تاہم مرنے والوں کے لواحقین اس نقصان پر آنسو بہانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایران کی تاریخ کا دوسرا بڑا جلوس تھا اس سے پہلے آیت اللہ خمینی کا ماتمی جلوس نکالا گیا تھا۔ اس جلوس کی جوتصاویر دنیا بھر میں شائع ہوئیں اس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ عزا داران، آیت اللہ خمینی کا کفن نوچ کر لے گئے تھے۔ تب ایرانی حکومت نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا تھاکہ غمگین لوگوں نے تبرک کے طور پر کفن کے ٹکڑے لے گئے ہیں لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مورخ اس واقعے کے بارے میں کچھ اور ہی لکھے گا۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی نظام کو چلانے والے اسے حرف آخر سمجھنے لگیں اور نسلی، لسانی، علاقائی،مذہبی، فرقہ وارانہ اور طبقاتی برتری کے غرور میں مبتلا ہو جائیں تو پھر مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی ریاست پرانے مفروضوں میں پھنس جائے تو اس کا انجام سوویت یونین کے جیسا ہوتا ہے۔ لیکن بدلتے وقت کے مطابق نظام میں اصلاحات کی جاتی رہیں تو پھرعالمی افق پر امریکہ اور چین جیسی عظیم طاقتیں ابھرتی ہیں۔ پاکستان کے حقیقی حکمراں طبقات کے سامنے دو ہی راستے ہیں کہ وہ یا تو امریکہ اور چین کے راستے پر چل پڑیں یا پھر موجودہ وقت میں ایران کے جیسے حالات میں پھنس جائیں۔