(تجزیہ:سمیرقریش)
رواں سال میں اسٹریٹ کرائم کی ریکارڈ وارداتیں ،کوئی گلی سڑک نہیں جورہزنوں سے محف وظ ہو،اعدادوشمارکے مطابق ڈکیتی مزاحمت 9ماہ کے دوران 74شہری اسٹریٹ کریمنلزکا نشانہ بنے اورجان کی بازی ہارگئے ، ،68ہزارموبائل فون چھینے گئے ،شہرقائد میں ہرشہری ہرگھنٹے میں چھ موٹرسائیکلوں اورتین موبائل فون سے محروم ہورہاہے ،اسی ضمن میں سی پی ایل سی اورپولیس کے اعدادوشمارمیں بھی واضح طورپرفرق سامنے آیا،پولیس ڈیٹاکے مطابق رواں سال اسٹریٹ کرائم کی 20ہزار400سے زائد وارداتیں ہوئیں جبکہ سی پی ایل سی کے مطابق رواں سال 79ہزار500وارداتیں ہوئیں جس کے بعدیہ بھی سننے میں آیاہے کہ ان اعدادوشمارپرپولیس اورسی پی ایل سی میں ٹھن گئی ہے ،اب بات یہ ہے کہ ان اسٹریٹ کرائم کو روکاکیسے جائے ؟یہ اسٹریٹ کرائم آج کی بات نہیں ماضی میں یہ وارداتیں چرس اورکاربائین سے شروع ہوئیں جب اسٹریٹ کریمنل چرس پی کر کاربائین اورگراری والی چھری سے وارداتیں کرتے تھے اس کے بعد پھردرے کی ٹی ٹی آئی جوجرائم پیشہ افراد اس سے وارداتیں کرتے تھے لیکن وہ بھی کامیاب نہ رہی ایک فائرکے بعد دوسرافائرہی نہیں ہوتاتھازمانہ جدیدہوتارہااوراب موٹرسائیکل 125پررہزن آئس یاکرسٹال لگاکرآتاہے اورپستول بھی درے کا نہیں جرمنی یابرازیل کا ہوتاہے جوکہ پانی کی طرح چلتاہے اورموبائلوں کے سامنے ہی لوٹ مارکرکے آنافانااڑن چھوہوجاتاہے ،اسی طرح بنکوں کو اگردیکھاجائے توہربنک کو اس بات کا پابندکیاگیاہے کہ وہ کسی کاﺅنٹرکے سامنے ایک سیفٹی وال لگائے لیکن بنک اس ایس اوپی پرعمل نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے بھی وارداتیں عام ہیں جوکہ بنکوں سے نکلتے ہیں اورلٹ جاتے ہیں کیونکہ بنک کے اندرایک بل بھرنے کے بہانے ایک شخض صبح سے شام تک بنک میں بیٹھارہتاہے اوراسے کوئی پوچھتانہیں اوروہی اندربیٹھ کر مخبری کرتاہے اورکیش لے کر باہرجانے والا لٹ جاتاہے ،جن بنکوں میں سیفٹی وال ہے وہاں وارداتوں کی شرح دوسے تین فیصد ہے اوردیگرمقامات پریہ شرح 50فیصد سے زیادہ نظرآتی ہے ،بات ہے ان اسٹریٹ کرائم کو روکنے کی تواس پرحکومت ،پولیس اورعدلیہ کو ایک پیج پرآناپڑے گا،حیرت اس بات کی ہے کہ ایک رہزن گرفتارہوتاہے تواس کا جب سی آراولیاجاتاہے تویہ ثابت ہوتاہے کہ وہ اس سے قبل بھی 12سے 14وارداتوں میں ملوث رہاہے اوراس کی ضمانت 50سے 60ہزارمیں ہوجاتی ہے جوکہ اس کے ساتھی جوکہ واردات میں ساتھ ہوتے ہیں وہ ملاکردے دیتے ہیں اوروکیل کی فیس بھی ساتھ ہی دیتے ہیں اس طرح ملزم کچھ دنوں یاماہ میں واپس آجاتاہے اورپھریہ گروہ وارداتیں شروع کردیتے ہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ قانون سازی کی جائے کہ اسٹریٹ کرائم میں جوبھی ملزم ملوث ہے اس کی ضمانت کم ازکم 10لاکھ روپے کی ہو تاکہ اس رقم کا انتظام کرتے ہوئے اس کے اہل خانہ کو بھی پتہ چلے اوردوست احباب کو بھی ،دوسری بات یہ کہ وہ جو جائداد کے کاغذات عدالت میں زرضمانت کے طورپرجمع کراتے ہیں وہ تقریبامنگھوپیر،سرجانی سمیت دیگرکچی آبادیوں کے ہوتے ہیں ان کی تصدیق توہوجاتی ہے لیکن یہ پتہ نہیں کہ ان کا وجودبھی ہے کہ نہیں جب جائیداد کلفٹن ،ڈیفنس ،گلشن اورگلستان جوہرکے مانگے جائیں گے تویقینا اسٹریٹ کریمنل پریشان ہوگا،تیسری بات یہ کہ کراچی شہرمیں آپ کو سڑک کناروں پرگاڑیوں کے ڈھانچے نظرآتے ہیں کسی نے بھی یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ گاڑیوں کے ڈھانچے کس کے ہیں ؟لیکن اگریہ چیک کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ ان گاڑیوں کی فائلیں ایک ایک لاکھ میں فروخت ہوچکی ہیں وہ بھی ضمانت کے طورپرعدالت میں رکھی ہوئی ہیں جبکہ وہ گاڑی تصدیق کے طورپرکلئیرآتی ہے اس کے لیے اسی سال کی رجسٹرڈ گاڑی کے کاغذات زر ضمانت کے طوررکھے جائیں اس سے بھی وارداتوں میں کمی آئے گی ،سب سے بڑی بات کہ ان اسٹریٹ کریمنلز کے جوضمانتی ہیں ان کی بھی تصدیق عدالت تھانوں سے کرائے اوراس کے بعد اس کو ضامن بننے کا حق دیاجائے اور اس کا پوراریکارڈ عدالت میں جیل میں اورتھانوں میں ہوتاکہ رہزنوں کے ضامن باربارکسی کے ضامن نے بن سکیں ،اس کا واحد حل ہی قانون سازی ہے تاکہ اسٹریٹ کرائمزکی شرح میں کمی آسکے ،اس سلسلے میں پولیس کے اعلیٰ حکام کو چاہیے کہ وہ پولیس کے ریٹائرڈ افسران سے فائد ہ اٹھائیں جوکہ اپنے دورمیں 35سے 40تھانوں میں ایس ایچ اواورڈی ایس پی رہ چکے ہیں اورانہوں نے سینکڑوں ملزمان کو گرفتارکیااوریقیناان کی خدمات حاصل کی جائیں توووہ نئی پولیس کے ساتھ مل کراس شہرکودوبارہ روشنیوں کے شہرمیں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس دورمیں شہری بے ٰخوف سڑکوں پراپنے اہل خانہ کے ساتھ رات گئے تک سیروتفریح کرسکتے تھے ۔