کراچی:(کامرس رپورٹر )
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ( پی بی اے ) نے پاکستان کے بینکوں کے عمل درآمدی ایجنٹس اور معاونتی شراکت داروں کے طور پر موثر اور مربوط کردار کو اجاگر کیا ہے۔ توفیق حسین ، سی ای او، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان ( ایس بی پی ) اور حکومت نے کوویڈ۔19 کی وبا سے نمٹنے کیلئے متعدد پروگرام شروع کئے ، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کا آغاز کیا، کم لاگت ہائوسنگ ، زرعی فنانس اور ایس ایم ای فناسنگ کے ترجیحی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی پرزور دینے کے علاوہ اس اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار کو برقرار رکھا جو ملکی ترسیلات زرمیں اضافہ کا سبب بنا۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ کورونا وبا ریلیف کیلئے سب سے بڑا اقدام نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کیلئے رعایتی فنانسنگ کی فراہمی ہے۔ عارضی اقتصادی ری فنانس سہولت ( ٹی ای آر ایف )کے تحت بینکوں نے دس سالہ مدتی قرضوں کیلئے فیکسڈ ریٹ پر فنانس فراہم کئے ۔ اس سہولت کے تحت 435 بلین روپے مالیت کے قرضے منظور کئے گئے جس میں سے 320 بلین روپے کے قرضے تقسیم کئے ۔
انہوں نے کہا ’’کورونا وبا کے آغاز سے لاک ڈائون کے دوران متعدد کاروبار دبائو کا شکار ہوئے ۔ورکروں کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے قرضوں کی روزگار ری فنانس اسکیم نے مشکل وقت میں کاروبار کو جاری رہنے میں مدد فراہم کی۔ اس اسکیم کے تحت قرض حاصل کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے ملازمین کو ملازمت سے فارغ نہیں کرسکتے تھے اور بینکوں کے پہلے قرض کے 40 فیصد نقصانات حکومت پاکستان نے برداشت کئے ۔ روزگار اسکیم کے تحت بینکوں کی طرف سے کل 238 بلین روپے کے قرضے تقسیم کئے گئے ۔”اس سلسلے میں دوسرا اقدام فنانس سہولت کی ری شیڈولنگ/ ری سٹرکچرنگ تھی جس میں قرض کی اصل رقم کی ادائیگی کو ایک سال کیلئے موخر کیا گیا جبکہ مارک اپ کی عدم ادائیگی یا اصل رقم کی ایک سال تک عدم ادائیگی کو طویل مدت کیلئے ری شیڈول کیا جاسکتا تھا۔ بینکوںکی طرف سے فنانسنگ کی اس سہولیات کی کوئی درجہ بندی نہیں کی گئی اور اسے ای سی آئی بی کے مقاصد کیلئے ریگولر بنایا گیا تھا۔بینکوں کی طرف سے موخر اور شیڈول/ ری سٹرکچر کی گئی رقم 910 بلین روپے تھی۔ بینکوں کے موثر کردار پر مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’ مارچ/ اپریل ، 2020 میں لاک ڈائون کے عروج پر بینکوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی درخواست پر یکم اپریل ، 2020 سے ان مارک اپ ری سیٹس کیلئے مارک اپ کو از سر نو طے کیا جو بصورت دیگر 2020 کی بعد کی تاریخوں میں واجب الاداء تھے۔بینکوں کی طرف سے مارک اپ کے از سر نو تعین پر ریلیف ایک بار کی پیشکش تھی اور اس کا اطلاق اہدافی شعبوں یعنی ایس ایم ای، زراعت اور کنزیومر فنانس (کاروباری افراد) ،کے تمام قرض داروں تھا جو اس وقت کے موجودہ حالات میں سب سے زیادہ کمزور سمجھے جاتے تھے، ۔ اس جذبہ خیر سگالی کے ذریعے، بینکوں نے اپنی مارک اپ آمدنی کی ایک معقول رقم چھوڑ دی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے اکائونٹ کی ڈیجیٹل شمولیت کے سلسلے میں ایس بی پی نے پاکستان میں کمرشل بینکوں کے ساتھ اشتراک میں اپنا تاریخی روشن ڈیجیٹل اکائونٹ پروگرام شروع کیا۔۔توفیق حسین نے کہا ’’اس وقت 14 بینک اوورسیز پاکستانیوں کو خدمات کی پیش کش کررہے ہیں۔ اس بڑے اقدام کے طور پر 400,000 سے زائد اکائونٹ کھولے گئے جس کے ذریعے 4 بلین ڈالر کی غیر ملکی کرنسی کا پاکستان میں ان فلو دیکھا گیا۔ بینکوں کے مزید مثبت کردار پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا جہاں اسٹیٹ بینک اور حکومتی پالیسی اقدامات نے بنیادی طور پر ملکی ترسیلات زر میں مستقل نمو میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں قومی ترسیلات کی شاندار کامیابی کے پیچھے بینکوں کا تعاون اور ان کا کرداربھی ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، ترسیلات زر کو حوالہ کے بجائے بینکوں کے ذریعے منتقل کرنے کے لیے دو اہم عوامل ہیں ۔ انہوں نے کہا "ایک زر مبادلہ کی شرح ہے اور دوسرا ترسیلات زر کی ٹرانزیکشن کے لیے متعین وقت ہے جیسا کہ حوالا بینی فشری کو ایک ہی دن کی ادائیگی کو یقین دہانی کرتاہے ، اس لیے بینکوں نے ، جو روایتی طور پر پروسیسنگ میں ایک ہفتہ (کبھی کبھی دو) سے زیادہ وقت لیتے تھے ، نے اجتماعی طور پر اس چیلنج کو قبول کیا اور آپس میں ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی عمل کو بہتر بنایا۔
انہوں نے مزید کہا ’’مزید برآں جیسے جیسے قابل عمل ٹیکنالوجی دستیاب ہوئی، بینکوں نے وسائل میں سرمایہ کاری کی اور اب بینک ایک ہی دن کی پروسیسنگ اور ادائیگیاں کرتے ہیں ۔ کچھ بینکوں نے اپنے متعین وقت کو فوری ادائیگیوں تک بہتر بنایا ہے۔ ان بہترین معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے، بینکوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ وہ خدمات کی فراہمی کے حوالے سے مسابقتی رہیں۔ "بینکوں کی طرف سے تعاون کا ایک اور بڑا شعبہ ترجیحی شعبوں کو قرضوں کی فراہمی سے متعلق ہے۔ اس پروگرام میں قرضوں کی فراہمی شامل ہے جو کم لاگت ہائوسنگ سکیموں کو فراہم کئے گئے ۔180 بلین روپے کے مجموعی قرضے منظور کئے گئے جس میں 66 بلین روپے کے قرضے تقسیم کئے گئے ۔توفیق حسین نے تذکرہ کیا کہ بینکوں نے زرعی فنانسنگ کی بھی پیش کش کی جبکہ موجودہ مالی سال (2021-22) کیلئے ہدف 1.7 ٹریلین روپے رکھا گیا جبکہ 1.05 ٹریلین روپے مالیت کے قرضے اپریل 2022 کے اختتام تک تقسیم کئے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’ بینکوں نے قرض حاصل کرنے والے اداروں کو ایس ایم ای فنانسنگ کی بھی پیشکش کی۔ اس کیٹگری کے تحت بینکوں نے ایس ایم ایز کو 31دسمبر، 2021 کو ختم ہونے والے سال کیلئے 524 بلین مالیت کے قرضے تقسیم کئے ۔