(تحریر :امتیاز متین)
پاکستان میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی کے تحت ہر روز ایک نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے اور پھر لوگوں کی ساری توجہ اس نئی بحث پر چلی جاتی ہے اور پرانے شوشے پر مٹی پڑ جاتی ہے۔ آزاد جمہوری معاشروں میں بھی عام شہریوں کے اذہان کو مائوف کرنے اور سوچ پر کنٹرول کرنے کے مختلف طریقوں کو آزمایا جاتا رہا ہے۔ تاہم پاکستان کی نئی نسل بھی ٹی وی اسکرین کے سامنے سے اٹھ چکی ہے اور اب اس کے ہاتھ میں موبائل فون، سوشل میڈیا، اور انٹرنیٹ آ چکا ہے۔ اگر کوئی شہری زیادہ ذہین نہیں ہے تو وہ واٹس ایپ پرنشر کیے جانے والے ہر پروپیگنڈا میسج کو من و عن تسلیم کر لے گا جبکہ پڑھے لکھے نوجوان ایک بات پر یقین نہیں کرتے بلکہ مختلف ذرائع سے اس کی بات کی تحقیق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔پاکستان میں تعلیم کی کمی ہے لیکن حالات کے تھپیڑے انہیں خود ہی ان کے شعور میں اضافہ کر رہے ہیں۔
کراچی کے ووٹروں نے تو پہلے ہی ایم کیو ایم کو مسترد کر دیا تھا ، اب اندرون سندھ پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے لیے بھی حالات ساز گارنہیں رہے ہیں۔ البتہ لاہور میں بہت سے لوگ ابھی تک میاں نواز شریف کی واپسی کا اسی طرح انتظار کر رہے ہیں جس طرح کراچی میں کچھ لوگ تیس سال بعد بھی الطاف حسین کی واپسی کے منتظر ہیں۔ جمہوریت، وقت کے ساتھ مضبوط ہوتی ہے اور معاشروں میں سوچنے اور مختلف چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے انداز بھی بدل جاتے ہیں۔ گو کہ میڈیا کی جہتیں بدل گئی ہیں لیکن اس کے باوجودعالمی سطح پر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ شعور اجاگر کرنے والی باتیں فضول اور عامیانہ باتوں کے شور شرابے میں چھپا لی جائیں ۔ ٹی وی اسکرین پر ایسے لوگوں کو شہرت دی جائے جو بے مقصد باتیں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس سب کے باوجود وقت نے یہ سکھایا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے حکمراں ہمیشہ سچ نہیں بولا کرتے۔
دو عشرے پہلے تک عام امریکیوں کا یہ عالم تھا کہ وہ سرکار کی جانب سے جاری کی جانے والی ہر خبر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی حکومت نے لوگوں کے اسی اندھے اعتماد کو مختلف ممالک کے خلاف جنگیں چھیڑنے کے لیے استعمال کیا۔ حتیٰ کہ عراق پر حملہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور القاعدہ سے تعلق کا کھلا جھوٹ گھڑا گیا۔جس میں ہزاروں عراقی ہلاک ہوئے اور لاکھوں دربدر۔۔۔۔گزشتہ دو عشروں کے دوران امریکہ، برطانیہ اور نیٹو افواج کی ان غیر قانونی جنگ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب روس نے یوکرین کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا تو جنوبی کرّے کے(ایشیائی، افریقی اور جنوبی امریکی) ممالک نے امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے روس کے خلاف چلائی گئی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ۔
امریکہ کو دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار سمجھا جاتا ہے لیکن اگر امریکی سیاست کا بغور جائزہ لیا جانا شوع کر دیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ الیکشن کے باوجود یہ بات پہلے ہی سے عیاں ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا اور پینٹاگون کی بنائی ہوئی کون سی پالیسیوں پر عملدرآمد کروائے گا اور کون کون سے باتوں پر ’’مٹی پائو‘‘ کہا جائے گا۔ مثال کے طورپر صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ گوانتانوموبے کا قید خانہ بند کروا دیں گے ، لیکن نہیں کروا سکے۔صدر اوباما نے کہا تھا کہ وہ افغانستان سے فوج واپس بلوا لیں گے لیکن ان کے زمانے میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور اسلام کے خلاف باتیں کیں لیکن اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے ووٹروں کی اسلام مخالف سوچ پر ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی نافذ کرتے ہوئے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے باز تک کہا لیکن پھر جلد ہی ان کا موقف تبدیل ہو گیا۔ بھارتیوں کو امید تھی صدر ٹرمپ اپنے دورۂ بھارت کے دوران پاکستان کے خلاف ان کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کوئی سخت بیان دے دیں گے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ ان کے دور میں افغان طالبان سے امن مذاکرات ہوئے اور انخلا کا پروگرام ترتیب دیا گیا اور بھارت کو افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود امن مذاکرات سے دور رکھا گیا۔ تاہم افغانستان سے جس انداز سے امریکی فوج کا انخلا ہوا اس کا سارا بوجھ صدر جو بائیڈن کو اٹھانا پڑا ہے۔ گو کہ اس انخلا میں سب سے بڑی مدد پاکستان نے فراہم کی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت نے اپنی سیاسی شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔بائیڈن انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے اپنی خفگی کا اظہار کرنے کے لیے جس بھونڈے انداز سے حکومت تبدیل کروانے میں مدد فراہم کی گئی ہے اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے بلکہ پاکستان میںحکومت کی تبدیلی سے امریکہ کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے اسے بحال کرنے کے لیے امریکی سفارتکاروں کو پس پردہ ’’مٹی پائو‘‘ ہی کہنا پڑا ہے۔ دوسری جانب اب عمران خان بھی اپنی تقاریر میں امریکہ کی مخالفت میں باتیں کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔
پاکستان میں سیلاب سے جو تباہی مچی ہے اس کے بارے میں خود سیلاب زدگان کا کہنا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر ڈبویا گیا ہے۔ ممکن سیلاب زدگان کے خیالات درست نہ ہوں اور وہ سنگین پریشانی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہوں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جو عالمی ایجنڈا بنایا گیا ہے اسکے تحت بکھری ہوئی آبادیو ں کوایک جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ تو بہت پہلے ہی بنایا گیا ہے تاکہ زیادہ علاقوں پر جنگلات اگائے جا سکیں۔ کئی ماہ پہلے ایک چھوٹی سی خبر یہ بھی آئی تھی کہ اندرون سندھ تین نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ ہے کیونکہ پرانے شہر اب اس قابل نہیں رہے ہیں کہ انہیں جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے ۔ اس کے علاوہ کچھ ایسی اڑتی اڑتی باتیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ اکتوبر نومبر تک کورونا وائرس کی وبا شدت اختیار کر جائے گی اور لاک ڈائون اور معاشی تباہی ایسی ہو گی کہ پاکستان قرض کی قسطیں اتارنے کے قابل نہیں رہے گا جس کے بعد آئی ایم ایف سے پاکستان کا قرض معاف کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ ملک میں کورونا کی وبا تو نہیں پھیلی لیکن سندھ کا بڑا علاقہ سیلاب کے پانی میں ضرور ڈوب گیا ہے۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرض معاف کروانے کی درخواست دائر کی جا ئے گی جس پر آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایسی درخواست دائر کرنے سے گریز کیا جائے۔
اگر قرض معاف کر دیا گیا تو جو پاکستان کا جو سرمایہ ہڑپ کر لیا گیا ہے اس کے کھاتے بھی بند ہو جائیں گے۔’’مٹی پائو‘‘ پالیسی کے تحت نیب قوانین میں ترامیم کے بعد سنگین بدعنوانیوں اور خورد برد کے سارے مقدمے بند ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر ممکن ہوتا تو بدعنوان حکمراں طبقات اپنی بد عنوانیوں کے کھاتے بند کروانے کے لیے مشرقی پاکستان کے جیسا کوئی سانحہ کروانے سے گریز نہ کرتے۔ لیکن بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں میں برسوں کے جنگ و جدل اور سندھ میںشہری اور دیہی قوم پرستوں کی برسوں ہنگامہ آرائیوں کے باوجود یہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اب شاید آخری حربہ یہ بچا ہے کہ 23 کروڑ آبادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال بڑے رقبے والے ملک کو 118 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کے عوض دیوالیہ قرار دے دیا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنے اکنامک ہٹ مین کی مدد سے غریب ممالک کو لوٹتے اور لٹواتے آئے ہیں۔ اگر آئندہ برسوں میں عالمی افق پر کوئی نئی سرد جنگ شروع ہو گئی تو ممکن ہے کہ بہت سے مقروض ممالک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دائرہ اثر سے ہی باہر نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو مغربی ممالک میں موجود اثاثے ضبط اور منجمد کرنے کا پرانا نسخہ دوبارہ استعمال کیا جائے گا۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا ہے کہ یوکرین تنازع شروع ہوتے ہی یورپی ممالک میں روسی سرمایہ داروں کی دولت اور جائیدادیں تو ضبط کر لی گئی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے روس پر عائد کی جانے والی معاشی پابندیوں کی پالیسی کا نقصان یورپ کی لیزنگ کمپنیوں کو اٹھانا پڑا ہے جنہوں نے روسی کمپنیوں کو بھاری قرض پر مشینری ، مسافر طیاروں جیسی چیزیں دے رکھی تھیں۔ اب نہ تو قرض کی قسطیں واپس ملنے کا کوئی بینکاری راستہ کھلا ہے اور نہ ہی طیارے اور مشینری واپس آ سکتی ہے۔ روس میں تین لاکھ نئے فوجیوں کی بھرتیوں کے اعلان سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ یوکرین کا تنازع اتنی جلدی ختم نہیں کرے گا ۔
دنیا کے بدلتے حالات آئندہ برسوں میں کیا رخ اختیار کریں گے اس کے بارے میں ابھی سے جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ان کے مطابق امریکی بینک اپنے انٹرسٹ ریٹس میں مزید اضافہ کریں گے تاکہ افراط زر کی شرح کو کم کیا جا سکے لیکن اس سے ڈالر مضبوط اورعالمی مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روس اور یوکرین کا تنازع جہاں عام لوگوں پرمہنگائی کے بوجھ میں اضافہ کر رہا ہے وہیں تیل اور گیس پیدا کرنے والے ممالک اور کمپنیاں خوب منافع کما رہی ہیں لیکن یورپی انڈسٹریز کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے برآمدات کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں۔ اگر آئندہ ایک دو برس میں تائیوان کے مسئلے پر چین اور امریکہ کے مابین کشیدگی بڑھی تو پھر دنیا کی سیاست، معیشت اور تجارت کے رجحانات بھی بدل جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا تھوک لگا کر کام چلانے والے حکمرانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا مستقبل محفوظ رہ پائے گا؟ بھیک کا ڈھوبرا لے کر ملکوں ملکوں پھرنے والوںکو کیا اس بات کا ندازہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو دنیا کی پانچ بڑی تہذیبوں ( ایران، افغانستان و وسطی ایشیا، چین، ہندوستان اور عرب) کے سنگم پر ہے۔ یعنی ہر تہذیب کی اچھی باتیں یہاں نافذ ہو سکتی ہیں، لیکن یہاں عام شہریوں کا تو کسی بھی معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری ، غربت، افلاس اور سیلاب سے ڈوبتے عوام کو قومی افق پر جاری سیاسی کشمکش سے اتنی زیادہ دلچسپی نہیں رہی ہے۔ انہیں اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی جنرل کو دو ڈیوٹی فری مہنگی گاڑیاں منگوانے کی اجازت دے دی جائے یا پھر غریب اراکین اسمبلی کو موٹر وے پر ٹول فری گزرنے جیسی مراعات دے دی جائیں۔ حکومت چاہے تو مراعات یافتہ طبقات کو احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی کوئی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔یہ بات عام شہریوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی کشمکش سے کیسے نکلا جائے گا۔ بس ایک ہی راستہ سمجھ میں آتا ہے کہ حکمراں طبقات کو مزید رعایت اور مراعات دینے والی ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی ترک کر دی جائے اور (کمپیوٹر یا موبائل فون کی طرح) پاکستان کا بھی ’’ری سیٹ‘‘ بٹن دبا دیا جائے۔