سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھیلنے لگے
پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے کروڑوں انسانوں متاثر ہیںاور سیلاب زدہ علاقوں میں سارا بنیادی ڈھانچہ خاک میں مل گیا ہے۔ بڑی تعداد میں گھر تباہ ہوئے ہیں، املاک اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، لوگوں کے بستر، برتن اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے قا بل ِ استعمال نہیں رہی ہیں۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں سیلاب سے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا۔ عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی کورونا سمیت متعدد وباﺅں سے لڑ رہا ہے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورت حال میں بیماریوں کے پھیلاﺅ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کورونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت کے اثرات ختم ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اور اس کیلئے بے تحاشا وسائل اور تعمیر ِنو کے ناقابل ِ شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کراچی نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں اضافے کی یہ لہر خدانخواستہ موجودہ اموات سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ پیما کی ٹیم اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔ پیما نے ریلیف کے اس کام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ پہلے فیز میں موبائل کلینکس اور کیمپ کلینکس میں کام جاری ہے۔ دوسرے فیز میں تشخیصی نظام کے ذریعے مختلف بیماریوں کیلئے اسپیشلسٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کروائیں گے“۔ اس وقت کیونکہ صحت سے متعلق ماہرین زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں، بلوچستان ،سندھ اور جنوبی پنجاب میں صحت کی سہولتیں پہلے ہی ناپید ہیں، اندرونِ بلوچستان اورسندھ تو بدترین صورتِ حال ہے، ہسپتالوں کے نام پر وہاں بڑی بڑی عمارتیں تو ہیں، لیکن سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس لیے اس بات کی فوری ضرورت ہے اور ڈاکٹروں نے بھی کہا ہے کہ حکومت ممکنہ طبی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا فوری اعلان کرے، طبی ماہرین کے پینل قائم کرے، اور ان امراض خصوصاً وبائی بیماریوں سے بچاﺅ کے لیے قومی پالیسی مرتب کرے، کیونکہ یہ کام حکومت ہی کرسکتی ہے اور فلاحی تنظیمیں اس کی مدد کرسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فیلڈ ہسپتال قائم کرے جن میں عام امراض کا بنیادی علاج اور بچاﺅ کی سہولتیں میسر ہوں۔ ہر ضلع میں کنٹرول سینٹر قائم کیے جائیں تاکہ سہولتوں کے ضیاع سے بچا جاسکے۔ لیکن دوسری طرف بدقسمتی سے اس کڑے وقت میں بھی قومی یکجہتی کا بدترین بحران ہے، ہمیشہ کی طرح ہم ایسے خاص موقعوں پر بھی انتشار کا شکار ہیں، اور قوم ٹی وی اسکرین پر سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور توہین ِ عدالت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا جہاں جہاں پہنچا، وہاں بھی لوگ ایک دوسرے پر اس تباہی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہر جگہ کے طاقت ور لوگوں نے اپنے آپ کو اور اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے پانی کا رخ تبدیل کیا، اور کوشش کی کہ دوسرا برباد ہوجائے اور ہم بچ جائیں۔ بدقسمتی سے ”سب سے پہلے میں“ والا جو کلچر حکمرانوں نے دیا ہے وہ تیزی کے ساتھ قوم میں بھی منتقل ہوا ہے، اور ہم صرف اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے لیے لینا جانتے ہیں۔ اس وقت ملک میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے، اور یہ کسی علاقے یا شہر تک محدود نہیں رہیں گے،
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں جہاں فوری نوعیت کے اقدامات کریں، صحت کی فوری نوعیت کی سہولتیں دیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کریں، وہاں اس بارے میں بھی غور و فکر کریں کہ مستقبل میں کس طرح اس تباہی سے بچا جاسکتا سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھیلنے لگے
پاکستانی تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے کروڑوں انسانوں متاثر ہیںاور سیلاب زدہ علاقوں میں سارا بنیادی ڈھانچہ خاک میں مل گیا ہے۔ بڑی تعداد میں گھر تباہ ہوئے ہیں، املاک اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، لوگوں کے بستر، برتن اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا کئی کئی فٹ اونچے پانی میں ڈوبے رہنے سے قا بل ِ استعمال نہیں رہی ہیں۔ نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں ناپید ہوگئی ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں سیلاب سے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا۔ عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی کورونا سمیت متعدد وباﺅں سے لڑ رہا ہے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورت حال میں بیماریوں کے پھیلاﺅ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کورونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہی اور ہلاکت کے اثرات ختم ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، اور اس کیلئے بے تحاشا وسائل اور تعمیر ِنو کے ناقابل ِ شکست حقیقی جذبے سے سرشار ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کراچی نے بھی اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اموات میں اضافے کی یہ لہر خدانخواستہ موجودہ اموات سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ پیما کی ٹیم اس وقت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے سرگرمِ عمل ہے۔ پیما نے ریلیف کے اس کام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ پہلے فیز میں موبائل کلینکس اور کیمپ کلینکس میں کام جاری ہے۔ دوسرے فیز میں تشخیصی نظام کے ذریعے مختلف بیماریوں کیلئے اسپیشلسٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کروائیں گے“۔ اس وقت کیونکہ صحت سے متعلق ماہرین زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں، بلوچستان ،سندھ اور جنوبی پنجاب میں صحت کی سہولتیں پہلے ہی ناپید ہیں، اندرونِ بلوچستان اورسندھ تو بدترین صورتِ حال ہے، ہسپتالوں کے نام پر وہاں بڑی بڑی عمارتیں تو ہیں، لیکن سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس لیے اس بات کی فوری ضرورت ہے اور ڈاکٹروں نے بھی کہا ہے کہ حکومت ممکنہ طبی بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا فوری اعلان کرے، طبی ماہرین کے پینل قائم کرے، اور ان امراض خصوصاً وبائی بیماریوں سے بچاﺅ کے لیے قومی پالیسی مرتب کرے، کیونکہ یہ کام حکومت ہی کرسکتی ہے اور فلاحی تنظیمیں اس کی مدد کرسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فیلڈ ہسپتال قائم کرے جن میں عام امراض کا بنیادی علاج اور بچاﺅ کی سہولتیں میسر ہوں۔ ہر ضلع میں کنٹرول سینٹر قائم کیے جائیں تاکہ سہولتوں کے ضیاع سے بچا جاسکے۔ لیکن دوسری طرف بدقسمتی سے اس کڑے وقت میں بھی قومی یکجہتی کا بدترین بحران ہے، ہمیشہ کی طرح ہم ایسے خاص موقعوں پر بھی انتشار کا شکار ہیں، اور قوم ٹی وی اسکرین پر سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور توہین ِ عدالت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ سیلاب کا تباہ کن طوفانی ریلا جہاں جہاں پہنچا، وہاں بھی لوگ ایک دوسرے پر اس تباہی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہر جگہ کے طاقت ور لوگوں نے اپنے آپ کو اور اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے پانی کا رخ تبدیل کیا، اور کوشش کی کہ دوسرا برباد ہوجائے اور ہم بچ جائیں۔ بدقسمتی سے ”سب سے پہلے میں“ والا جو کلچر حکمرانوں نے دیا ہے وہ تیزی کے ساتھ قوم میں بھی منتقل ہوا ہے، اور ہم صرف اپنے آپ کو محفوظ کرنا اور اپنے لیے لینا جانتے ہیں۔ اس وقت ملک میں وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے، اور یہ کسی علاقے یا شہر تک محدود نہیں رہیں گے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں جہاں فوری نوعیت کے اقدامات کریں، صحت کی فوری نوعیت کی سہولتیں دیں اور لوگوں کو ریلیف فراہم کریں، وہاں اس بارے میں بھی غور و فکر کریں کہ مستقبل میں کس طرح اس تباہی سے بچا جاسکتا