سعودی عرب کی خلائی تحقیقی ایجنسی ایک امریکی خلائی ادارے ایکسیوم کے ساتھ مل کر اگلے برس پہلی سعودی خاتون کو خلا میں بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اگر سب طے شدہ منصوبے کے مطابق رہا تو اگلے برس سعودی خلانورد خاتون خلا کے لیے روانہ کر دی جائے گی۔ سعودی عرب نے خلانوردی کا پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت وہ دو شہریوں کو اگلے برس تک خلا میں بھیجنا چاہتا ہے، سعودی اعلان کے مطابق ان دو میں سے کم از کم ایک خلانورد ایک خاتون ہو گی۔ یہ مشن امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں قائم ایکسیوم اسپیس نامی ادارے کی معاون سے مکمل کیا جائے گا۔
اماراتی مشن ’ہوپ‘ نے مریخ کی اولین تصویریں زمین پر بھیج دیں
متحدہ عرب امارات کے مریخ مشن کی روح رواں، سارہ الامیری
ایکسیوم اسپیس کے صدر مائیکل سفیرڈنی نے ایک بیان میں کہا، ”خلا تمام انسانیت کی میراث ہے، ایکسیوم اسپس سعودی اسپس کمیشن کے ساتھ مل کر ایک سعودی خاتون سمیت خلانوردوں کی تربیت اور پرواز کے اس نئے منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہے۔1985 میں سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان السعود پہلے ہی امریکہ کے ڈسکوری مشن کے ذریعے زمین کے آربٹ کا سفر کر چکے ہیں۔ تاہم امریکہ یا کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں روایتی طور پر کم حقوق حاصل رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہےکہ سعودی خواتین پر سن 2018 تک گاڑی چلانے پر پابندی عائد رہی ہے۔ ایسے حالات میں کسی سعودی خاتون کی خلانوردی کا منصوبہ ایک بڑی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔امریکی کمپنی ایکسیوم اس سے قبل ایک پرائیویٹ عملے والے مشن کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچا چکی ہے۔ اس پرواز کا نام اے ایکس ون تھا،
جس میں پیسے دے کر خلا میں پہنچنے کے خواہش مند تین افراد کے علاوہ ایکسیوم کے ایک کارکن (ناسا کے سابقہ خلانورد) مائیکل لوپیز الگیریا شامل تھے۔ یہ افراد اسپیس ایکس کے ڈریگون کیپسول کے ذریعے زمین سے خلا میں گئے اور لوٹے تھے۔ ایکسیوم اب اے ایکس ٹو نامی ایک نئے مشن کی تیاری کر رہی ہے، جو اگلے برس موسم بہار میں روانہ کیا جائے گا۔
آرٹیمِس ون: ناسا کی جانب سے خلائی سفر کا ایک نیا دورکہا جا رہا ہے کہ اس سعودی مشن کے لیے بھی ایکسیوم ممکنہ طور پر اسپیس ایکس کی خدمات حاصل کر سکتی ہے۔ اس مشن میں بھی خلانورد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جا کر واپس لوٹیں گے۔ تاہم فی الحال ایکسیوم نے اس مشن کے حوالے سے تفصیلات جاری نہیں کی