اسلام آباد۔ (اے پی پی):گولڈن ٹیمپل کے قتل عام کے نام سے معروف آپریشن بلو سٹار کی 38ویں برسی نے بھارت میں سکھوں کے درد کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔2 جون 1984 کو امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ پر شروع کی گئی فوجی کارروائی نے ان کی کئی نسلوں پرخوفناک اثر چھوڑا، جو آج بھی دردناک ماضی کے ساتھ جی رہی ہیں۔
بھارتی فوج نے صوبے بھر میں سکھوں کے دیگر 41 مندروں پر بھی حملہ کیا اور ہزاروں سکھوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جب کہ نہ تو کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی متاثرین کے لواحقین کو انصاف فراہم کیا گیا۔اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے انتخابی فتوحات کے لیے ’ہندو کارڈ‘ استعمال کرنے کے سیاسی فیصلے نے انھیں پوری سکھ برادری کے ساتھ تصادم کا خطرناک راستہ چُننے پر مجبور کیا۔آپریشن بلیو اسٹار کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی کل تعداد کا سب سے زیادہ قابل اعتماد تخمینہ 5,000
سے 7,000 تک ہے جسے سکھوں نے اسے اپنی تاریخ کے سیاہ ترین دور کے طور پر یاد رکھا ہو اہے ۔
بھارتی مسلح افواج کی ہندوستان میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی ایک اپنی تاریخ ہے اور گولڈن ٹیمپل کو نشانہ بنانے والا فوجی آپریشن اس کا واضح مظہر ہے۔بدقسمتی سے، تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش میں، موجودہ بھارت میں ہندو بنیاد پرست اب بھی فرقہ وارانہ دشمنی کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ بھارت میں فرقہ وارانہ امن تباہی کے دہانے پر ہے جہاں تاریخ، مذہب اور سیاست کو ملانے کی کوششیں دور رس نتائج کے ساتھ آگ بھڑکانے والی صورتحال پیدا کر رہی ہیں۔برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی ذہنیت ایک بار پھر بھارتی سیاست پر حاوی ہو گئی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت اور جابرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے ۔
دیگر حالیہ واقعات میں 2019 میں سکھ کسانوں کے خلاف امتیازی قانون سازی، سال بھر کے احتجاج کے دوران ان کے مطالبات پر توجہ نہ دینا، بی جے پی کے ایک وزیر کے ہاتھوں سکھ کسانوں کا بغیر کسی پچھتاوے کے قتل، اور کرتار پور راہداری کی بی جے پی حکومت کی مخالفت اور پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شامل ہیں ۔اس تاریخی جبر نے سکھ برادری میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔
خالصتان کے نام پر زمین کے ایک الگ ٹکڑے کا خیال جون میں گولڈن ٹیمپل واقعے کی ہر سال برسی کے موقع پر تازہ کیا جاتا ہے۔سیکورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سکھوں کی حمایت کرے جیسا کہ اس نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے معاملے میں کیا تھا