کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی کی وفاقی رہائشی کالونی ایف سی ایریا میں بیوہ خاتون کے ساتھ انتہائی نامناسب لب و لہجہ اور غیر اخلاقی الفاظ کے استعمال پروفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی وہڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے اسٹیٹ آفس کراچی کے ڈائریکٹر آغا ایوب جان کوان کے عہدے سے ہٹادیا ہے اوراختیارات سے تجاوز پران کے خلاف انکوائری کرنے کا حکم دیا ہے۔ ڈائریکٹراسٹیٹ ایوب جان نے سرکاری فلیٹ خالی کرانے کے دوران بیوہ خاتون سے کہا تھا کہ،،، بیوہ ہو تو شادی کرلو،،ان کے بیان پرمبنی ویڈیووائرل ہونے پروفاقی حکومت اورسیکریٹری وزارت ہاؤسنگ نے معاملے کا نوٹس لیا تھا۔ قبل ازیں وفاقی سیکریٹری ہاوسنگ و ورکس افتخار شالوانی نے کراچی کے علاقے ایف سی ایریا میں سرکاری وفاقی گھرخالی کرانے کے دوران ڈائریکٹر اسٹیٹ آفس کراچی محمد ایوب کی بیوہ خاتون کے ساتھ غیراخلاقی نامناسب گفتگواورغیرمہذب لب و لہجہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزارت ہاوسنگ ڈائریکٹر اسٹیٹ آفس کراچی کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے محمد ایوب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔وفاقی سیکریٹری ہاوسنگ و ورکس کا کہنا تھا کہ کسی افسر کو بدتمیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی،خواتین کا احترام ہم پر فرض ہے۔ڈائریکٹر اسٹیٹ کراچی محمد ایوب کوویڈیو وائرل ہونے کے بعد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، ان کا کہنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق ایف سی ایریا میں فلیٹ خالی کرانے گئے تھے،اہل خانہ نے بدتمیزی کی۔ڈائریکٹر اسٹیٹ کراچی محمد ایوب نے کہا کہ میرے منہ سے بے ساختہ جملے نکل گئے،میرے ان جملوں سے بیوہ خاتون کو تکلیف ہوئی اور ان کی دل آزاری ہوئی میں تہہ دل سے معذرت چاہتا ہوں
اوراس خاتون سے معافی مانگنے پر تیار ہوں۔واضح رہے کہ کراچی کی وفاقی رہائشی کالونی ایف سی ایریا میں اسٹیٹ آفس کے ڈائریکٹر کی جانب سے بیوہ خاتون کے ساتھ انتہائی نامناسب لب و لہجہ اور غیر اخلاقی الفاظ کے استعمال پر علاقہ میں اشتعال پھیل گیا تھا، اسٹیٹ آفس کراچی کے ڈائریکٹر محمد ایوب نے مکان خالی کرنے کے دوران بیوہ خاتون سے غیر اخلاقی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیوہ ہو تو شادی کرلو ۔ ویڈیو میں مذکورہ افسر کے الفاظ کی ایف سی ایریا ریذیڈینس کمیٹی نے شدید مذمت کی تھی اوراسے سوشل میڈیا پروائرل کردیا تھا۔کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عالمی بینک کے اعلیٰ اختیاراتی وفد جس کی سربراہی ریجنل نائب صدر جنوبی ایشیاء مسٹر رائسر کررہے تھے سے ملاقات میں صوبے میں سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرنے اور ان کی بحالی کے حوالے سے 1.1 بلین ڈالرز کا منصوبہ پیش کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے 140,914 مربع کلومیٹر رقبے میں سے، شدید بارشوں/سیلاب سے 15.39 فیصد یعنی 21,691.7 مربع کلومیٹر اور 66,549 آبادی والے رقبے میں سے 18.8 فیصد یعنی 12,541.6 مربع کلومیٹر زیر آب آ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تباہی کی شدت اتنی شدید ہے کہ لوگوں کی بحالی، زراعت، انفراسٹرکچر کی بحالی اورمتاثرین کے لیے آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ ہوں گے۔وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی اجلاس میں ڈبلیو بی کی سینئر آپریشنز آفیسر مس ایوا سوبچنسکا، کنٹری ڈائریکٹر مسٹر ناجی بینہسین، آپریشنز مینیجر مسٹر گیلیس جے ڈراؤجلس، پروگرام لیڈرز مسٹر عابدالرازق ایف خلیل، مسٹر طوبیاس اختر حق اور سینئر ڈیزاسٹر رسک احسن تحسین اور دیگر نے شرکت کی جبکہ وزیراعلیٰ سندھ کی معاونت ان کی کابینہ کے اراکین ڈاکٹر عذرا پیچوہو، ناصر شاہ، ضیاء عباس شاہ، مشیران منظور وسان، مرتضیٰ وہاب، رسول بخش چانڈیو، معاون خصوصی حارث گزدر، چیف سیکرٹری سہیل راجپوت، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی اور متعلقہ صوبائی سیکرٹریز نے کی۔اجلاس کے آغاز میں ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیائی سربراہ مسٹر مارٹن نے کہا کہ وہ دادو، جامشورو اور دیگر علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں اور ایسی خطرناک سیلابی صورتحال اور انسانی بحران کبھی نہیں دیکھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ڈونر ایجنسیWB متاثرہ لوگوں کو بحران سے نکالنے کے لیے صوبائی حکومت کی مدد کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ہاؤسنگ سیکٹر: وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سیلاب سے 1.7 ملین مکانات منہدم ہوچکے ہیں جنہیں دیہاتوں اور قصبوں سے پانی کی نکاسی کے بعد دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں گھروں کی تعمیر پر کم از کم 500 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ سردیوں کی آمد سے پہلے لوگ اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ موسم سرما خیموں اور سڑکوں پر رہنے والوں کے لیے مزید مسائل پیدا کر دے گا۔ورلڈ بینک ساؤتھ ایشین کے سربراہ نے کہا کہ ان کے ماہرین اور سندھ حکومت کے متعلقہ افسران مل بیٹھ کر اس کی لاگت، وقت اور تعمیراتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک منصوبہ تیار کریں گے تاکہ منصوبے کو منظوری کے لیے بینک حکام کو بھیجا جا سکے۔
آبپاشی کے نیٹ ورک کی بحالی: مراد علی شاہ نے کہا کہ سیلاب اور شدید بارشوں نے ڈیموں /ان سے منسلک اسٹریکچر ، بیراج ہیڈ ورکس، نہر، چینلز، نالے، سیلاب سے بچاؤ کے بڈز،تعمیراتی ڈھانچے اور ٹیوب ویل اور پمپس کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تخمینہ کے مطابق آبپاشی کے نیٹ ورک کی بحالی پر تقریباً 94.7بلین روپے لاگت آئے گی۔
مراد علی شاہ نے عالمی بینک پر زور دیا کہ وہ تبدیلی مد میں کے ذریعے کم از کم 250 ملین ڈالر فراہم کرے تاکہ آبپاشی کے نیٹ ورک کو ٹھیک کیا جا سکے، ورنہ نہ صرف زرعی معیشت کو نقصان پہنچے گا بلکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد بھی خستہ حالی کا شکار ہوجائیں گے۔عالمی بینک کے سربراہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا کہ وہ ان کی منظوری کے لیے تجویز پیش کریں ۔
پانی کی فراہمی اور نکاسی آب: وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے دورے پر آئے ہوئے ڈونر ایجنسی کے جنوبی ایشیائی سربراہ کو بتایا کہ 23 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ موسلادھار بارشوں/سیلاب نے بڑے اور چھوٹے شہروں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی اسکیموں کی مرمت اور بحالی پر تقریباً 100 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ شہروں اور دیہاتوں سے پانی کے اخراج کے ساتھ ہی پانی کی فراہمی اور نکاسی کی اسکیموں پر کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے سربراہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا کہ وہ اس حوالے سے ورکنگ پیپر پیش کریں۔ اس پر چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی نے کہا کہ کاغذات تیار ہیں بہت جلد جمع کرائیں گے۔
میونسپل سڑکیں: وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ شدید بارشوں نے 102 تعلقہ اور 5727 دیہات میں میونسپل سڑکیں تباہ کر دی ہیں – جس سے مراد میونسپل سڑکوں کے نام سے جانا جانے والا پورا نیٹ ورک مکمل طور پر منہدم ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ اب ان سڑکوں کو دوربارہ مرمت/ تعمیر کی ضرورت ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ میونسپل سڑکوں کی تعمیر نو کے لیے کم از کم 100 ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ورلڈ بینک کی ٹیم نے سڑکوں کی تفصیلات جمع کرانے کی تجویز دی تاکہ اس منصوبے پر غور کیا جا سکے اور اس کی منظوری دی جا سکے۔
آمدنی کے ذرائع پیدا کرنا: مراد علی شاہ نے کہا کہ سیلاب سے 12 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں جو کہ غریب لوگوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ بے گھر ہونے کے بعد سیلاب سے بہت سے لوگ اپنی آمدنی کے ذرائع سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ میں متاثرہ افراد ، مرد اور خواتین کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے اسکیمیں شروع کرنا چاہتا ہوں تاکہ ان کے لیے دوبارہ آمدنی کی سرگرمیاں بحال کرسکیں جیسے کہ پھل/سبزیاں فروش کرنا، خواتین کی کڑھائی کا کام اور اس طرح کی د یگرسرگرمیاں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ آمدنی پیدا کرنے اور روزی روٹی کی اسکیم پر 1 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس پر ورلڈ بینک کے وفد نے اس پلان کو سراہا اور وزیراعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ اس کا ورکنگ پیپر منظوری کے لیے پیش کریں۔
ریسکیو اور بحالی: وزیراعلیٰ سندھ اور ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیائی سربراہ نے عالمی بینک کے مختلف منصوبوں سے فنڈز کی دوبارہ تخصیص/دوبارہ استعمال پر بھی تبادلہ خیال کیا تاکہ متاثرہ لوگوں کو خیمے، مچھر دانیاں، ادویات اور جانور فراہم کرکے انہیں ریسکیو اور بحالی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور ورلڈ بنک کے کنٹری ڈائریکٹر ہر ہفتے کو یہاں زیر غور ا سکیموں پر جائزہ اجلاس منعقد کریں گے تاکہ انہیں متاثرین کے فائدے اور بحالی کے لیے عملی جامہ پہنایا جا سکے۔