کراچی( آغا خالد سے )
اندرون سندھ کےسیلاب متاثرین کے لیے ملیر ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے ڈی جی سہیل خان نے نیوملیرہائوسنگ اسکیم سیکٹر 18 کےلنک روڈ پرخیمہ بستی قائم کی ہے جس میں 50 ہزار متاثرین سماسکتے ہیں جبکہ متاثرین کی آڑ میں لینڈ گریبرز کی جانب سےسرکاری زمینوں کے ہتھیانے سے بچنے کے لیے ایم ڈی اے نے علاقہ کےرکن اسمبلی اور صوبائی وزیر ساجدجوکھیو اور ڈپٹی کمشنر ملیر کو اس کی ذمہ داری سونپی ہے کیونکہ نیو ملیر ہائوسنگ اسکیم کے تقریباً تمام ہی سیکٹر میں 30 سال قبل پلاٹنگ کرکے سرکاری سطح پر شہریوں کو پلاٹ الاٹ کیے جاچکےہیں
الاٹیز کی اکثریت نے تو ایم ڈی اے کوتمام واجبات ادابھی کردیے ہیں مگر ترقیاتی کاموں میں ٹاخیرکے سبب انہیں بروقت قبضہ نہ دیاجاسکا قبل ازیں حکومت سندھ کی ہدایت پر کے ایم سی نے نیا ناظم آباد سے متصل 50 ایکڑ پرمتاثرین نے سیلاب کے لیے عارضی خیمہ بستی قائم کی تھی جس میں اصل متاثریں چند سو ہی آئے ہیں جبکہ لینڈ گریبرز کی بڑی تعداد نےاس بستی کارخ کرلیاہے اور ماضی کی تاریخ دھراتےہوئے ان متاثرین کی حیثیت بھی مشکوک بنادی ہے مگرعلاقہ پولیس اور انتظامیہ ان بدنام لینڈ گریبرز کےخلاف کاروائی سے اس لیے ہچکچارہی ہےکہ ان کے خلاف کسی بھی آپریشن کو یہ طاقت ور مافیا عصبیت کارنگ دےکر اس کارخ موڑ دیتے ہیں
متاثرین کی بروقت امداد میں کوتاہی کے سبب صوبائی حکومت اپنی کمزور رٹ کی وجہ سے آسانی سے بلیک میل ہوجاتی ہے جیساکہ دو روز قبل ایک طاقت ور لینڈ گریبر کی شکایت پر ایس ایچ او منگھوپیر یاسین گجرکاتبادلہ کردیاگیاہے کچھ ایسی ہی صورت حال ایس ایس پی اور ڈپٹی کشنرغربی کےساتھ بھی ہے جو اہم سرکاری شخصیات کےزیرسایہ لینڈ گریبرز کےخلاف کاروائیوں کی وجہ سے ناپسندیدہ ہوچکے ہیں ایس ایس پی کاتو تبادلہ کیا جاچکاہے اور ان کی جگہ ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود نئی تقرری نہیں کی جاسکی جبکہ 4 پولیس افسران میں تعناتی کی دوڑ جاری ہے اس صورت حال کی وجہ سے شہریوں میں بڑھتی بےچینی اور غصہ نےحالات کوتشویش کارخ دیدیاہے
متاثرین کی امدادکی کاروائیاں اس صورت حال کی وجہ سے متاثرہورہی ہیں جے ڈی سی کے علاوہ دیگر رفاعی تنظیمیں متاثرین کوکھانا یا دیگر بنیادی اشیائے ضروری دینے میں تعمل برت رہےہیں۔