اسلام آباد (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فراہم کیے جانے والے قرضوں، استعداد کار اور ضروریات کے درمیان فرق ختم ہونا چاہیے، عالم جنوب کثیر جہتی بحرانوں سے نبردآزما ہے، ہمارا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے عوام کی صحت اور معشیت متاثر ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے عالمی تنوع کے نئے لائحہ عمل اور قدرتی مسائل سے نمٹنے کے لئے دیئے جانے والے قرضوں سے متعلق لارڈ گولڈ اسمتھ کی دعوت پر وزارتی سطح کی تقریب سے خطاب کیا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی اعتبار سے سازگار ملک پاکستان کی بڑھتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہیں، ہمیں اپنے ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل میں مسقبل کے حوالے سے نہ صرف آگاہی پائی جاتی ہے بلکہ وہ اس کے تحفظ کے لئے پرعزم بھی ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ کئی دیگر ممالک بھی ان مسائل سے نمٹنے کے لیے لئے وسائل سے محرومی کا شکار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ماحولیات کے تحفظ کے لیے وسائل اور تکنیکی مہارت کی کمی کا سامنا ہے تاہم امیر ممالک کاربن کے اخراج سے نمٹنے کے لیے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ تقریب میں وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن موسمیاتی تناؤ ہماری انسانی صحت اور معیشت پر اثرات مرتب کیے ہوئے ہے۔
عالمی برادری ہمیں درپیش ماحولیاتی بحران جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں کو سنجیدگی سے لے۔ہم بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی بحران کے دہانے پر ہیں۔ اس کے علاوہ المیہ یہ بھی ہے کہ پیچیدہ مسائل کے بارے میں عوامی بیداری اور ضروری روابط کا بھی فقدان ہے۔ اس کے لیے مالی اعانت ناگزیر ہے۔ دیگر ممالک کی جانب سے پلاسٹک کے فضلہ کا ہمارے ساحلوں پر پہنچنا بھی پریشان کن ہے ۔ اس حوالے سے عالمی ہم آہنگی اور روابط بہت ضروری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے کچھ حصے پہلے ہی آلودگی یا فصلوں کو جلانے کی وجہ سے سموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم پانی کی قلت کے دہانے پر ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی فوری راستہ نہیں جس سے درپیش آبی مسائل کا ادراک کیا جا سکے۔ جس کی ذمہ داری مقامی طور پر تمام ممالک کے سرکاری اور نجی شعبوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے عالمی جنوب سے قدرتی وسائل نکال کر سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالم جنوب متعدد پیچیدہ بحرانوں سے لڑ رہا ہے، پاکستان میں ایسے شہر ہیں جہاں پہلے ہی 51 ڈگری درجہ حرارت ہے اور پاکستان کو رواں سال پانی کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے براہ راست ہماری فصلیں متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ آبی اور ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کے لیے مالیاتی وسائل اور تکنیکی صلاحیتوں کی عدم فراہمی کے باعث مستقبل مایوس کن نظر آتا ہے۔