اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور دیگر رہنمائوں کے بیانات کا جائزہ لینے اور ان کی روشنی میں مقدمات قائم کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی ہے جبکہ وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ عمران خان کے بیانات بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں، وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہیں، عمران خان صوابی سے مسلح افراد لے کر نکلے جس کا مقصد ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانا تھا، انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا، لانگ مارچ شرکاء نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی اور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ بھی کی، پارلیمنٹ لاجز اور خیبرپختونخوا ہائوس میں مسلح افراد کو پناہ دی گئی جس کے شواہد موجود ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ، وفاقی وزیر مواصلات اسعد محمود اور مشیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے منگل کو کابینہ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی جماعت اور تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوئی، ان کے گینگ میں فورسز کے نوجوان کریمنل گینگ میں شامل تھے اور دیگر محکموں کے لوگوں کو بھی یہاں پر لایا گیا اور اس مجرمانہ سیاسی ایجنڈا جو قوم کو تقسیم کرنے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے پر مشتمل ہے ، کے ساتھ وفاق پر حملہ آور ہوئے، اسلام آباد میں صرف چند ہزار لوگ اکٹھے ہوئے،انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مارچ کو جب اٹک ڈسٹرکٹ، میانوالی اور اسلام آباد کی حدود پر روکا گیا تو اس نے پولیس پر فائرنگ کی اور مسلح انداز میں پولیس کو یرغمال بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ سے آرڈر آیا کہ راستے کھول کر انہیں یہاں آنے دیا جائے اور انہیں ایچ نائن میں جلسہ کرنے کی اجازت دی جس کیلئے ہم نے انتظامات بھی کئے، ان کا مقصد جلسہ اور سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ یہاں پر انارکی اور افراتفری پھیلانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں سپریم کورٹ سے جب موقع ملا تو انہوں نے ایک لمحہ کیلئے نہیں سوچا کہ وہ جلسہ کریں گے بلکہ انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ ڈی چوک ضرور جائیں گے، ڈی چوک میں پاکستان تحریک انصاف کے تین سے چار ہزار لوگ جمع ہو چکے تھے، ان سب کا تعلق ایک صوبے سے تھا اور وہ ایک جتھے کا فرنٹ تھے، یہ لوگ ایک دو دن پہلے یہاں آ چکے تھے، ہم ایک ایک کا نام درج کر رہے ہیں، یہ لوگ پارلیمنٹ لاجز اور کے پی کے ہائوس میں ٹھہرائے گئے، پارلیمنٹ لاجز میں پورے ملک سے اراکین مقیم ہیں، پی ٹی آئی نے مسلح لوگوں کو یہاں ٹھہرا کر بڑی غلطی کی، ہم نے تمام بلڈنگ مارک کر لی ہے کہ کس جگہ کتنے لوگ تھے، عمران خان نے عدالتی احکامات کے بعد ڈی چوک جانے کا اعلان کر دیا تھا یہ نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی بلکہ توہین عدالت تھی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیان کے مطابق ان کے پاس مسلح لوگ تھے، وہ جب ڈی چوک پہنچے تو ڈی چوک میں کوئی نہیں تھا اور وہی لوگ پہنچے تھے جو ایک دو روز قبل یہاں پر آئے تھے، اسلام آباد سے کسی نے بھی فسادی مارچ میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے عوام کا شکریہ ادا کیا خاص طور پر اسلام آباد کے شہریوں کا جو فسادی ٹولے کا حصہ نہ بنے، اسی طرح پنجاب اور دیگر صوبوں سے بھی کسی نے فسادی مارچ میں شرکت نہیں کی، عمران خان کا بیان ہے کہ کارکنان لانگ مارچ میں اسلحہ لائے تھے اور وہاں سو فیصد خون خرابہ ہونا تھا، میں کہتا ہوں کہ سو فیصد نہیں بلکہ دو سو فیصد وہاں خون خرابہ ہونا تھا کیونکہ تحریک انصاف والے وہاں سیاسی مارچ کرنے نہیں بلکہ وفاق پر حملہ آور ہو کر خون خرابہ کرنے ہی آئے تھے، صوابی میں لوگوں کے پاس اسلحہ موجود تھا جس کی ویڈیو موجود ہے، پولیس کی طرف سے صرف ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا اور پولیس کی طرف سے ایک بھی فائر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ یہ کریمنل ایکٹ ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کوئی سیاسی سرگرمی یا جمہوری مارچ نہیں تھا جس کے تمام شواہد موجود ہیں، یہ بات ثابت کریں گے کہ یہ مجرمانہ اور فسادی مارچ تھا، ان کا اسلحہ لانے کا اقدام کریمنل ایکٹ ہے، آپ گولی چلانے کیلئے ہی مسلح لوگ لائے تھے، کابینہ کے سامنے اس اقدام کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی اجازت مانگی ہے، حکومت اجازت دے تو مقدمہ درج کرائیں گے، کابینہ نے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو اس پر کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں جو اراکین شامل ہیں، نے کہا تھا کہ ہم ڈی چوک جائیں گے جس کے بعد ریڈ زون کراس کریں گے، اس اقدام کی دوسری رائے نہیں بلکہ یہ کریمنل ایکٹ ہے، قابل سزا ہے جس کی تجویز کابینہ کے سامنے رکھی ہے، مقدمہ کی اجازت حکومت سے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ نے سب کمیٹی تجویز کی ہے، کمیٹی اپنی رائے سے کابینہ کو آگاہ کرے گی، پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی گفتگو، ویڈیو، آڈیو سے ثابت کریں گے اور ان کے خلاف مقدمات درج کریں گے، حکومت اپنے پاس سے ان کے خلاف کوئی چیز نہیں ڈالے گی، فسادی ٹولہ قوم کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔
اس پر موقع خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات اسعد محمود نے کہا کہ عمران خان کے بیانات بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں، عمران خان ہوش کے ناخن لیں اور قانون کے دائرے میں رہیں، تحریک انصاف کی حکومت نے جو معیشت کا بیڑا غرق کیا وہ سب کے سامنے ہے، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل کے علاوہ ملک کو معاشی بحران کا شکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت چلاتے رہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے، ہم عوام کو ان تمام حقائق سے آگاہ کریں گے، عمران خان اول تو اسلام آباد آئیں گے ہی نہیں اور اگر وہ آئے بھی تو اب اسمبلی کے سوا کہیں نہیں آئیں گے، انہیں فساد مارچ کیلئے آنے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی تصور سے ہی حکومت چلائیں گے اور ملک کو درپیش معاشی مسائل ہوں یا دیگر انتظامی مسائل، کابینہ نے مل کر حل کیلئے کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی رٹ کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ وفاقی وزیر مواصلات نے کہا کہ عمران نیازی کے الزامات اور دھمکی آمیز بیانات پر کابینہ اجلاس میں بھرپور مذمت کی گئی ہے اور ملک کے خلاف ہر سازش کو آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی بے بسی پر روز آنسو بہاتے ہیں کہ وہ اسلام آباد نہیں آ سکتے، ہماری ذمہ داری ہے کہ حکومتی رٹ ہر صورت قائم کریں، عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ ان کے ساتھ مسلح افراد تھے، ہم نے بھی آزادی اور ملین مارچ کئے، احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن جنہوں نے پاکستان کی خدمت کا حلف اٹھایا ہو وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتےایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف فارن فنڈنگ کیس ابھی بھی پڑا ہوا ہے اور وہ حقیقی آزادی کے نام پر، مذہب کارڈ اور کشمیر کارڈ کا استعمال کرکے قوم کو گمراہ کرے اس پر شرم آتی ہے، قوم کو گمراہ کرنے کیلئے مذہب کارڈ کا استعمال کیا گیا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عمران خان نے ہمیشہ اپنا بیانیہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کیا اور اپنے کسی بیانیہ پر قائم نہیں رہے، پہلے کرپشن اور لوٹ مار کی باتیںکر رہے تھے، پھر پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑوں نوکریوں کی بات کی، پھر سستا تیل اور بجلی عوام کو فراہم کرنے کے دعوے کئے اور ہمیشہ قوم سے جھوٹ بولا اور اب اپنے قتل کی سازش کا بیانیہ اپنایا اور کہا کہ ایک کیسٹ ریکارڈ کروا کر کے رکھ دی ہے، ان سے کہا گیا کہ یہ کیسٹ اگر رانا ثناء اللہ کو نہیں دینی تو آئی جی پنجاب اور آئی جی خیبرپختونخوا یا سپریم کورٹ کو دیدیں، اگر وہ یہ کیسٹ نہیں دیتے تو پھر وہ اعانت جرم کا شکار ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہائی کورٹ کے حکم سے انکار کیا، حالانکہ ہائی کورٹ میں وہ خود گئے تھے، حکومت ہائی کورٹ نہیں گئی تھی، ہائی کورٹ نے کہا کہ ایچ نائن میں جہاں جے یو آئی (ف) نے جلسہ کیا اور دھرنا دیا تھا وہاں آ جائیں لیکن ان کا ٹریک ریکارڈ ٹھیک نہیں، یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں، پھر یہ سپریم کورٹ میں گئے اور جب سپریم کورٹ نے ایچ نائن کا کہا تو اس کے پانچ منٹ بعد ہی عمران خان نے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ڈی چوک جانے کا اعلان کر دیا، ان کی نظر میں عدالت کے فیصلے کا اتنا احترام تھا، کل عمران خان نے پھر کہا کہ ہم دوبارہ سپریم کورٹ میں جائیں گے اور سپریم کورٹ سے کہیں گے کہ ڈائریکشن دیں کہ ہمیں نہ روکا جائے، سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے ہم نے بہر حال اپنی تیاری کے ساتھ جانا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان سپریم کورٹ کے پاس کیا کرنے جا رہے ہیں، اگر اسلام آباد یا کسی اور جگہ امن و امان خراب ہوتا ہے تو ذمہ داری حکومت پر آتی ہے، بار بار کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) نے مارچ کیا تھا ہم نے تو نہیں روکا، 27 فروری کو بلاول بھٹو نے مارچ کا آغاز کیا تھا اور اس وقت کہا تھا کہ عمران خان ہم تم پر جمہوری حملہ کریں گے، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی (ف) اور پیپلزپارٹی کے مارچ کے دوران ایک پتہ تک نہیں ٹوٹا، ہم نے انتظامیہ سے جو طے کیا تھا کہ ہم یہاں بیٹھیں گے اس سے پہلو تہی نہیں کی گئی، مارچ کے شرکاء پر امن طور پر منتشر ہو گئے اور پھر جمہوری حق استعمال کیا، اگر مسلح جتھے ریڈ زون میں آ جاتے تو میڈیا اور عدلیہ ہم سے سوال کر رہی ہوتی کہ کیسی حکومت ہے، حکومت نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، عمران خان اب کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت انتخابی قوانین، نیب قوانین اور اوورسیز پاکستانیز کے ووٹ کے حق کو ختم کر رہی ہے، ہم بار بار وضاحت کرتے رہے ہیں اور اب پھر وضاحت کرتے ہیں کہ نیب قوانین میں کسی رعایت کے لئے کوئی ترامیم نہیں کی گئی، جو ترامیم کی گئی ہیں وہ عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق کی گئی ہیں،
ان چیزوں میں ترامیم کی گئی ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو پکڑ کر ایک لمبے عرصے کے لئے جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا، 90 دن کا ریمارنڈ، تین تین سال نیب جیلوں میں لوگوںکو رکھنا، اس طرح کی ترامیم کی گئی ہیں، عمران خان کے اپنے دور میں بھی باتیں کی گئیں کہ ان قوانین کو درست کرنے کی ضرورت ہے، جس دن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی قوانین اور نیب کے قوانین منظور کئے جا رہے تھے ہم نے اسی دن کہہ دیا تھا کہ جس دن ہمیں موقع ملا ہم ان قوانین کو ختم کر دیں گے، یہ انصاف کے قواعد کے منافی ہیں، ہم اچانک یہ بات نہیں کہہ رہے، ہم نے اسی دن کہہ دیا تھا کہ آپ غیر آئینی کام کر رہے ہو، پارلیمان کو بلڈوزکر رہے ہو، ہم اس کو نہیں مانتے،
ہم نے الیکشن کمیشن کے ہاتھ کھول دیئے ہیں جو سابق حکومت نے باندھ دیئے تھے، اوورسیز پاکستانیز کا ووٹ کا حق اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن امریکہ میں اگر انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی ہو سکتی ہے تو کیا پاکستان میں نہیں ہو سکتی؟ ہم نے کہا تھا کہ صرف ووٹ کا حق دینے کا ڈھونگ مت رچائو یہ تو پہلے سے موجود ہے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیز کو اسمبلیوں میں نمائندگی ملے، ان کے نمائندے اسمبلیوں میں آکر بیٹھیں، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے مسائل کو حل کر سکیں، اگر عمران خان کا جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو کیا انتظامات ممکن ہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کی تیاری مکمل ہے؟ الیکشن کمیشن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے کیونکہ ای وی ایم کا قانون بنا دیا گیا تھا،
الیکشن کمیشن کی ای وی ایم کے حوالے سے تیاری نہیں اور اس حوالے سے ساری جماعتوں کے اپنے اپنے تحفظات موجود ہیں، تکنیکی طور پر اور عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہے، اوورسیز پاکستانی ہمارے بھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو قانون توڑتا ہے اس کو قانون توڑتا ہے، ساڑھے تین سال عمران خان حکومت نے اپوزیشن کو صرف گالیاں دیں اور وزیراعظم شہباز شریف نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذاکرات کرنے کو تیار ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ پہلے الیکشن کا اعلان کیا جائے تو پھر بیٹھ کر مذاکرات کئے جائیں ایسے نہیں ہو سکتا، اگر آپ واقعی پاکستان کے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے اور چارٹر آف ڈیموکریسی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر آپ واقعی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو وزیراعظم کی آفر موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لئے قانون میں ایک طریقہ کار موجود ہے، اس طریقہ کار کو اپنانے کے لئے جو بھی وقت لگے اس طریقہ کار کو اپنانا ہے، سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کو پانچ بجے کے قریب اجازت ملنے تک اسلام آباد میں 100 بندہ اور راولپنڈی میں 50 بندہ بھی موجود نہیں تھا، ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت ارد گرد سے لوگ جمع ہو رہے تھے اور رکاوٹیں اس وقت تک ہٹا دی گئی تھیں، ایچ نائن سے پہلے رکاوٹیں لگانا اس وقت ممکن نہیں تھا، پھر اس وقت ریڈ زون کی حفاظت کرنا ہمارے لئے ضروری تھا، ہمیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ ہم نے انہیں آنسو گیس اور ربڑ بلٹ کے ذریعے کنٹرول کرنا تھا، ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ مسلح ہیں، ہم نے جو حکمت عملی بنائی اس کے مطابق ان کو ڈی چوک میں اکٹھا نہیں ہونے دینا تھا، تحریک انصاف نے پولیس کو باقاعدہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس کو انہوں نے اسلحہ کے زور پر زیر بار کیا، خیبرپختونخوا پولیس کی گاڑیاں اور سول کپڑوں میں پولیس ان کے ساتھ تھی، اس حوالے سے تمام شواہد موجود ہیں، ان تمام شواہد کو ہم کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ پہلے سے تیاری کر کے آئے تھے، ڈیڑھ ماہ تک یہ تیاری کرتے رہے ہیں، پورے پنجاب اور ہر جگہ جہاں انہوں نے جلسے کئے وہاں فتنہ اور فساد کی بات ہی کی جا رہی تھی، لوگوں کو ابھارا جا رہا تھا، اقتدار چھننے کے بعد عمران خان پاگل پن کا شکار ہو گیا تھا، ہمارے پاس تو وہی دو دن تھے، ان دو دنوں میں جو ممکن ہو سکتا تھا ہم نے وہ بھرپور طریقے سے کرنے کی کوشش کی، اگر کے پی ہائوس میں دو اڑھائی سو بندہ ٹھہرا ہوا ہے تو وہاں ہماری کیا رسائی ہے، ان کے وی آئی پیز پارلیمنٹ لاجز میں ٹھہرے ہوئے تھے، ان کے پاس ابھی 85 لاجز موجود ہیں حالانکہ پی ٹی آئی ارکان استعفے دیدیئے ہیں، الائونسز، تنخواہیں لی جا رہی ہیں اور لاجز بھی انہی کے پاس ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب اگر یہ آئے تو میں دیکھوں گا کہ یہ خیبرپختونخوا کی طر ف سے کس طرح بیریئرز کو کراس کرتے ہیں اور اسلام آباد کے کسی بھی گھر میں دس بندوں کو بھی کیسے ٹھہراتے ہیں؟ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا جائے یا سیاسی انتقام لیا جائے تو عوام اسے تسلیم نہیں کرتے لیکن کسی کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے لیکن اگر کوئی ایسی کارروائی کی جائے جو قانون کے مطابق اور سچائی پر مبنی ہو اور لوگوں کو بھی نظر آ رہی ہو تو اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ انہوں نے کہا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے جب تک کابینہ یا وزیراعظم کی ڈائریکشن نہ ہو تو اس پر بات نہیں کی جا سکتی، یہ چیزیں ملک کی بہتری کے لئے ہیں، ہمیں بہتری کے لئے دعا کرنی چاہئے