کراچی(نمائندہ خصوصی) سندھ کابینہ نے سیلاب سے متاثرہ مقامی کاشتکاروں حوصلہ افزائی اور انہیں مستحکم کرنے کے لئے زیادہ گندم اگانے اور قحط جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے گندم کی سپورٹ قیمت 4000 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی ہے۔ اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزراء، مشیران، چیف سیکرٹری اور متعلقہ سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے مختلف وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے پریس بیان کے ذریعے کابینہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 9000 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے درآمدی گندم خرید کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ دوسرے ممالک کے کاشتکاروں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہااب ہمیں اپنے کاشتکار کے بارے میں سوچنا ہے، انہوں نے سیلاب کے پانی سے اپنی زمین کو دوبارہ حاصل کرنا ہے، اسے بوائی کے لیے تیار کرنا ہے اور فصل اگانے کے لیے مہنگے آدانوں کا استعمال کرنا ہے، اس لیے بہتر قیمت کا فائدہ کسانوں تک پہنچانا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے زراعت منظور وسان نے کہا کہ زرعی زمینیں زیر آب آ چکی ہیں، انہیں پانی نکالنے، اگلی فصل کے لیے تیار کرنے کے لیے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر گندم کو ایک خاص تناسب سے نہ اگایا گیا تو صوبے کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کاشتکاروں کو مراعات کے طور پر اچھی قیمت دینے کی تجویز دی۔ کابینہ کے اراکین نے مکمل بحث کے بعد گندم کی فصل 23-2022ء 23 کے لیے 4000 روپے فی 40 کلو گرام امدادی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔
گندم ایشو پالیسی: اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ محکمہ خوراک یکم اکتوبر 2022 سے اپنے گندم کے اسٹاک کو جاری کرنا شروع کر دے گا، جبکہ ایشو پرائس کی تجویز مشیر زراعت منظور وسان، وزیر خوراک مکیش چاولہ، وزیر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز محمد اسماعیل راہو، معاونین خصوصی قاسم نوید اور حارث گزدار اور چیف سیکرٹری سہیل راجپوت پر مشتمل ذیلی کمیٹی کرے گی۔کابینہ نے ذیلی کمیٹی کو ایک ہفتے میں اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی۔
آفت زدہ علاقے: محکمہ ریلیف کی سفارش پر کابینہ نے 24 اضلاع کو آفت زدہ علاقوں کے طور پر منظوری دے دی، جن میں کراچی ڈویژن کے ضلع ملیر کی دو یوسی بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت پہلے ہی 22 اضلاع کو 21 اگست 2022
کو آفت زدہ قرار دیا اور تھرپارکر کو 29 اگست 2022 کو مطلع کر چکی ہے۔
تعینات: سندھ کابینہ نے سلیکشن بورڈز/کمیٹیوں کی سفارش پر عمران صمد کو سندھ بینک کے سی ای او/صدر، سید صلاح الدین ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ اور اسد اللہ کو چیف آپریٹنگ آفیسر کراچی واٹر تعینات کرنے کی منظوری دی۔
سیلاب کے لیے کوآرڈینیشن: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیلاب 23-2022ء کے لیے کوآرڈینیشن میکنزم قائم کرنے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے راشن بیگز، ٹینٹ اور مچھر دانی فراہم کرکے امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اجلاس کو بتایا کہ کیمپوں میں 600000 سے زائد بے گھر افراد رہائش پزید ہیں جن میں سے مختلف پیچیدگیوں کے 1363312 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کل مریضوں میں سے 28 فیصد کو گیسٹرو، 27 فیصد کو جلد کے امراض، سات فیصد ڈینگی اور ملیریا اور 38 فیصد کو دیگر مسائل تھے۔ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا نے انکشاف کیا کہ کیمپوں میں 5636 حاملہ خواتین رہ رہی ہیں جن میں سے 439 کی پیدائش قریب ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ تمام حاملہ خواتین کی رجسٹریشن کی جائے اور ڈاکٹروں کو ان کا باقاعدگی سے دورہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین اور بچوں کو سپلیمنٹس لازمی فراہم کی جائے۔ سید مراد علی شاہ نے پی ڈی ایم اے کو ریلیف کیمپوں میں ملیریا کے کیسز پر قابو پانے کے لیے مچھر دانی کی مناسب تقسیم کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔
پی ڈی ایم اے:پی ڈی ایم اے نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 10 ستمبر 2022 تک 183424 خیمے تقسیم کیے جا چکے ہیں اور 9945 پائپ لائن میں ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو 145090 ترپال فراہم کر دی گئی ہیں اور 60000 آئندہ چند دنوں میں موصول ہونے کی توقع ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ 1385105 مچھر دانیاں تقسیم کی جا چکی ہیں اور 174600 پائپ لائن میں ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو 301060 راشن بیگ دیے گئے ہیں جبکہ 21640 پائپ لائن میں ہیں۔
دریا کی پوزیشن: محکمہ آبپاشی سندھ نے کابینہ اجلاس کو بتایا کہ کوٹڑی میں اب بھی 620095 کیوسک پانی اپ اسٹریم اور 593597 کیوسک پانی ڈاؤن اسٹریم کے ساتھ اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ گڈو بیراج اور سکھر بیراج معمول کی پوزیشن میں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ منچھر جھیل 11 ستمبر کو 122.80 آر ایل پر تھی اور وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 10 ستمبر کو یہ 122.50 تھی، اس کا مطلب ہے کہ دریائے سندھ میں پانی چھوڑنے کے باوجود اس کے پانی کی سطح اب بھی بڑھ رہی ہے۔ سیکرٹری آبپاشی سہیل قریشی نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ منچھر جھیل سے 97017 کیوسک پانی دریا میں خارج ہو رہا ہے اور امید ہے کہ اس کے پانی کی سطح اگلے 48 گھنٹوں میں نیچے آجائے گی۔