کرکٹ کے میدان میں چھکے تو بے شمار لگے ہوں گے لیکن شارجہ کے گراؤنڈ پر پاکستان کے سابق کپتان جاوید میاں داد کے چھکے کے حصے میں جو شہرت آئی ویسی شہرت شائد کسی اور چھکے کو نصیب نہیں ہوئی۔ کرکٹ ریکارڈ کا کھیل ہےلیکن شائد اس کھیل میں شہرت کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔اگر ایسا ہوتا تو میاں داد کے چھکے کی شہرت کا ریکارڈ بھی بدھ کی رات ٹوٹ جاتا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چھکے جاوید میاں داد کے پائے کے کسی بلے باز نے نہیں مارے۔ یہ چھکے کے پاکستان کے کے بولر نسیم شاہ نے لگائے جو افغانستان کے خلاف ایشیاء کپ کے سپر فور مرحلے کے ٹی ٹوئنٹی میچ میں دسویں نمبر پر بیٹنگ کے لئے آئے تھے۔ یہ وہی نسیم شاہ ہیں جو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ابھی نووارد ہیں۔ بدھ کی رات کو کھیلے جانے والے میچ سے قبل وہ کل صرف تین ٹی ٹوئنٹی میچز کا انتہائی قلیل بلکہ ابتدائی تجربہ رکھتے تھے۔ انیسویں اوور میں زور دار شاٹس کھیلنے والے آصف علی کی وکٹ گری تو ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کی جیت کی امیدیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ آصف علی کی وکٹ گرنے پرپوری افغان ٹیم ہی خوشی میں جھوم رہی تھی تاہم آصف کی وکٹ لینے والے بولر فرید احمد تو آپے سے ہی باہر ہوگئے۔ میچز کے دوران کھلاڑیوں میں نوک جونک ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی لیکن فرید احمد کے شائد جیت کی رعونت کو کچھ زیادہ ہی محسوس کر رہے تھے۔ اس کے منہ سے نکلنے والے شعلے صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ آصف علی کو گالیاں بک رہا ہے۔ اس موقع پر امپائر نے بیچ بچاؤ کرایا اور آصف علی گراؤنڈ سے باہر آگئے۔ واضح رہے کہ فرید احمد سمیت تمام افغان کھلاڑی وہ ہیں جنہوں نے سرزمین پاکستان پر بیٹ پکڑنا اور کرکٹ سیکھی۔ پاکستانیوں کی شاگردی اب بھی جاری ہے۔ آج بھی وہ فرید جو پاکستانی بیٹسمین کو غلیظ گالیاں دے رہا تھا اس کا بولنگ کوچ کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے سابق فاسٹ بولر عمر گل ہیں۔ اس کے باوجود جس انداز سے افغانستان کے بولر نے مغلظات بکیں اس کا اثر گراؤنڈ سے نکل کر انکلوزر میں موجود تماشائیوں کے اندر بھی سرایت کر گیا۔ افغان بولر فرید احمد کی مثال اسی ایک گندی مچھلی کی سی ہے جو پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔فرید احمد نے نفرت کا جو اظہار کیا وہ تماشائیوں میں بھی پہنچ گیا۔اس مخصوص فضاء میں گراونڈ کے اندر کی صورتحال یہ تھی کہ پاکستان ایک بار پھر میچ کو آخری اوور تک لے گیا۔ جہاں اسے جیتنے اور فائنل میں اپنی جگہ پکی کرنے کے لئے 11۔ رنز درکار تھے۔گویا چھ گیندوں میں 11۔رنز بنانے تھے۔ کریز پر کوئی مستند تو درکنار اچھا بلے باز بھی موجود نہیں تھا۔ نسیم شاہ دسویں نمبر پر بیٹنگ کے لئے آئے اور ان کے ساتھ نان اسٹرائیکر اینڈ پر گیارہویں نمبر کے بلے باز نماز حسنین موجود تھے۔ بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ پاکستان کے یہ غیر معروف بلےباز ٹیم کو جتوا دیں گے۔ لیکن کرکٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتفاقات کا کھیل ہے۔ اس دعوے کو نسیم شاہ اور حسنین کی جوڑی نے ایک بار پھر سچ کر دکھایا۔ یہ 11 رنز فاسٹ بولر نسیم شاہ اور محمد حسنین نے بناڈالے۔افغانستان کی طرف سے آخری اوور کرانے فضل الحق فاروقی آئے جو پہلے ہی بابر اعظم، محمد نواز اور خوشدل شاہ کو آؤٹ کر کے اپنی دھاک بٹھاچکے تھے،مگر نسیم شاہ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اور اوور کی پہلی دو گیندوں پر دو چھکے لگا کر افغانستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا۔ فاروقی کا اوور شروع ہونے سے پہلے افغان اور ہندوستانی شائقین فرط جذبات سے نہال تھے۔ ان کی توقع تھی کہ افغانستان جیت جائے گا دوسری طرف پاکستانی شائقین کے منہ لٹکے ہوئے تھے لیکن نسیم شاہ نے وہ کر دکھایا جس نے جاوید میانداد کے چھکوں کی شہرت بھی گہنا دی۔ ان چھکوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت خوبصورت جملہ لکھا گیا۔ یہ جملہ یہاں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ تھی کہ نسیم شاہ نے کرکٹ کی تاریخ کے لمبے ترین چھکے مارے۔ پہلا چھکا شارجہ سے کابل میں جاکر گرا، تو دوسرا چھکا شارجہ سے نئی دہلی جا کر گرا۔ ان چھکوں کی بدولت چار گیند پہلے ہی پاکستان کے بولر نسیم شاہ نے میچ ختم کر ڈالا۔ باہر بیٹھے شائقین کی صورت حال یکسر بدل گئی۔ جیت کی توقع سے سرشارافغانی اور ان کے ہندوستانی دوستوں کے چہرے ماند پڑ گئے جبکہ ماند پڑے ہوئے پاکستانی چہرے کھل اٹھے۔ یہ خوشی شائقین میں موجود افغان باشندوں اور ہندوستان کے پاکستان دشمنوں میں ڈوبے شائقین کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے افغان شائقین نے سٹیڈیم میں موجود پاکستانی شائقین پر دھاوا بول دیا۔ بپھرے افغان شائقین پاکستانیوں پر مل کر حملے کرتے رہے۔ یہ مناظر پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ افغان شائقین اپنی قوم کے ہارنے سے زیادہ پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ وہ محسن کش قوم ہے، جس نے کرکٹ پاکستان میں سیکھی جس کی موجودہ وہ نسل جو کم از کم چالیس سال یا اس سے بھی زیادہ ہے اس نے پاکستان میں آنکھ کھولی۔اس نے پاکستان میں کھایا پاکستان میں ہی پیا لیکن اسی پاکستان سے وہ دشمنی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔یہ جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے والے لوگ ہیں۔زیادہ تر افغانیوں کی مثال مار آستین کی ہے جو پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔بدھ کی رات کو بھی یہ افغان شائقین تھےجو ہندوستانی دوستوں کی ہلہ شیری پر اپنی قوم کی ہارپر اپنا سر پیٹنے کے بجائے، پاکستان کی خوشی ان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔افغانوں کے اس روئیےکے بعد پاکستان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان بے ضمیروں کو اپنی سرزمین سے نکالنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کے بچوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کے لئے افغان شائقین کی دادا گیری ان کے منہ پر تماچہ ہے ۔لہذا ان بن بلائے مہمانوں کو اب پاکستان بدر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔جن کی ہر ضرورت پاکستان کے راستے سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن یہ پھر بھی نئی دہلی کی محبت میں گرفتار ہیں اور نئی دلّی سے شاباش حاصل کرنے کے لئے ہی پاکستانیوں پر حملے کر رہے تھے۔ ان کی یہ فطرت تاریخ کے دریچوں سے جاکر ملتی ہےجب ریشمی رومال تحریک کے کارکنوں نے افغانستان کا رخ کیا تو افغانیوں نے ان پر پانی چھوڑ دیاتھا۔ ان سے کوئی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں ملک بدر کرنا چاہیے اور جو ان کی حمایت کرے ان کی بھی وفاداری ضرور چیک کرنی چاہیے کہ آیا وہ پاکستان سے وفادار ہیں بھی یا نہیں ؟