(تحریر:فرحان رضا)
نائن زیرو بالاخر جلا کر مسمار کرنے کی تیار کر لی گئی۔ مخالفین کے گھر جلا کر مسمار کرنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔۔ آخری بار انگریز فوج نے یہ رویہ رکھا تھا ۔۔
حیرت تو مجھے ایم کیو ایم اور پی ایس پی پر ہوتی ہے جو ساری زندگی اس جگہ سے سیاسی قوت حاصل کرتے رہے وہ اف بھی نا کرسکے۔ حالانکہ یہ سب کہیں نا ہوتے اگر نائن زیرو نا ہوتا۔۔
نائن زیرو سیاسی مرکز تھا تو خوف و دہشت کی علامت بھی تھا۔ اکثر دوسرے شہروں سے آنے والے لوگوں کو نائن زیرو دیکھنے کا اشتیاق ہوتا تھا۔ لاہور رہائش کے دوران کئی لوگ ایسے ملے جن کے کزن یا دوست رینجرز یا ایجنسی میں تھے تو انہوں نے ان کو نائن زیرو باہر سے دکھایا۔۔ اور وہ فخر سے کہتے تھے کہ ہم نائن زیرو دیکھ کر آئے ہیں۔۔
تیس سال سے زائد عرصے پر محیط اس گھر کی سیاست ہے جس نے کم و بیش سات حکومتوں کو کبھی دوام بخشا تو کبھی گرا دیا۔
نائن زیرو کی لسانی سیاست اور مسلح جتھے کی سیاست پر ہمیشہ تنقید کی لیکن اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے رہنماوں سے لیکر کارکنان تک جو جواز دیتے تھے ایسے واقعات ان جواز کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔ ان کا موقف ہوتا تھا کہ پورے پاکستان میں سیاستدان اسلحہ اور جتھوں کے ذریعہ حکمرانی کرتے ہیں وہاں آپ تنقید نہیں کرتے بوری بند لاشیں کراچی کی نظر آتی ہیں لیکن مخالفین کی ٹکڑے کرکے بوری بند لاشیں پھینکنے کا رواج سندھ و پنجاب میں صدیوں سے ہے۔۔ وہاں آپ کی زبان بند ہوتی ہے ویسے بھی سب سے پہلے بوری بند لاشیں فوجی آپریشن میں ایم کیو ایم کارکنان کی سڑکوں پر پھینکی گئیں تھیں۔۔ یہ وہ چند نکات ہیں جو وہ تواتر سے دہراتے رہے ہیں
جب انیس سو بانوے کا فوجی آپریشن ہوا تو فوج نے نائن زیرو سے جناح پور کا نقشہ برآمد کیا اسے برآمد کرنے والے بعد میں اقرار کرتے رہے کہ یہ نقشہ جعلی تھا۔لیکن اس کے ذریعہ جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ فوج نے کرلیا تھا۔۔
ایم کیو ایم کے احتجاج کرنے کا بھی الگ انداز تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بانوے کے آپریشن کے دوران فوجی افسران بار بار تاثر پھیلا رہے تھے کہ اب ایم کیو ایم مکمل ختم ہوچکی ہے آفاق احمد کی ایم کیو ایم ہی باقی بچی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ اس دوران ایم کیو ایم کی لندن سے ایک انوکھے احتجاج کی کال آئی کہ یوم سوگ منائا جائے اور کالے غبارے فضا میں چھوڑے جائیں۔۔ اس کا مقصد یہ جاننا بھی تھا اور بتانا بھی تھا کہ کتنی سپورٹ الطاف حسین کو حاصل ہے۔ اس روز کراچی کی فضا سیاہ غباروں سے بھر گئی تھی۔ یہ بات واضع ہوچکی تھی کہ خاموش سپورٹ ایم کیو ایم کو حاصل ہے۔
ایم کیو ایم کے زوال کی داستان لکھی جائے گی تو اس میں اہم ٹرننگ پوائنٹ عمران فاروق کا قتل تھا۔ انہیں ایم کیو ایم کا دماغ کہا جاتا تھا۔ اور ان کی زندگی میں ایم کیو ایم کے احتجاج یونیک اور پاور فل ہوتے تھے۔ عمران فاروق کے بعد ایم کیو ایم نظریاتی جماعت سے گھٹ کر ایک مسلح جتھہ رہ گئی تھی مسلسل حکومت میں ہونے کے باوجود اردو اسپیکنگ کے مسائل حل نہیں کراپارہی تھی البتہ اس کے ارکان اسمبلی سے لیکر یونٹ انچارجز تک مالدار ہورہے تھے۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب ممکن نا تھا اگر عمران فاروق موجود ہوتے کیونکہ ان کا مسلسل رابطہ کارکنان سے ہوتا تھا۔اور سیاسی اتار چڑھاو پر نظر رکھتے تھے۔ پھر ایم کیو ایم کو اجمل دہلوی اشتیاق اظہر شعیب بخاری جیسے منجھے ہوئے دماغوں کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
دوسری بڑی وجہ کراچی تنظیمی کمیٹی تھی جس میں ریاستی اداروں کو کنٹرول حاصل ہوگیا تھا۔ اس کمیٹی نے اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ مل کر جو کشت و خون بہایا ہے اور جو لوٹ مار کی ہے وہ کراچی کا سیاہ باب ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم الطاف کو دوبارہ پذیرائی ملے گی؟ تو فی الحال یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت تو محرومی کا شکار نظر آتی ہے لیکن مہاجر بصورت قوم مکمل طور پر محرومی کا شکار نظر نہیں آتے جس کی وجہ پورے ملک میں وڈیروں جاگیرداروں سرداروں ملکوں کے مظالم کی کہانیاں آج میڈیا سوشل میڈیا کے ذریعہ سب تک پہنچتی ہیں تو یہ تاثر ختم ہوجاتا ہے محرومی اور جبر کا شکار صرف اردو بولنے والے ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی اور عہدیداروں پر پارٹی کارکنان کئی الزامات لگاتے ہیں ۔
صرف ایک خطرہ ہے جو ایم کیو ایم الطاف کو دوبارہ سپورٹ دلا سکتی ہے وہ ہے ریاستی اداروں کا معاندانہ رویہ، اسٹریٹ کرائمز اور پیپلز پارٹی کی ڈیولپمنٹ کاموں میں سستی یہ سب ایم کیو ایم الطاف کو موقع دے سکتی ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو پنجابی حکمرانی قرار دیکر یا پھر پیپلز پارٹی کو کراچی دشمن قرار دیکر جدوجہد منظم کرنے کی کوشش کریں۔۔ لیکن اس کے لیئے بڑی ہمت اور ٹھنڈے دماغ کی ضرورت ہے جو فی الحال ایم کیو ایم کے پاس نہیں ہے۔ اس کے لیئے پولیس رینجرزکی گولیوں اور ڈنڈوں کے سامنے سڑکوں پر پتھر چلانے پڑتے ہیں ۔۔ تب جاکر جگہ بنتی ہے۔۔ لیکن جیسا کہ ریاستی ادارے سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ اب ایم کیو ایم میں وہ دم نہیں۔۔ اس لیئے ایم کیو ایم الطاف کی واپسی اب ممکن نہیں۔۔