( تحریر:مسعود انور)
سندھ میں متاثرین کی جو حالت ہے سو ہے ، اس پر طرفہ تماشا ریلیف کا کام ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ امدادی سامان جمع کرنے کے ہر کیمپ پر منرل واٹر کی چھوٹی بوتلوں کے کریٹ کے کریٹ رکھے ہوں گے ، آپ سوشل میڈیا پر خبریں پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ متاثرین میں جوس کے ڈبے ، بسکٹ اور پانی کی بوتلیں تقسیم کی گئیں ۔ بادی النظر میں یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی کہ اس میں غلط کیا ہے۔ اس معاملے کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں ۔
ہر کام ضرورت کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ۔ اگر آپ کو اپنے گھر سے سو دو سو میٹر دور کسی دکان پر جانا ہے تو پیدل جانا مناسب ہوگا، اگر پانچ دس کلومیٹر جانا ہے تو گاڑی کا استعمال کریں گے اور اگر کراچی سے اسلام آباد جانا ہے تو پھر ریل یا ہوائی جہاز کا استعمال کریں گے ۔ کچھ ایسا ہی انداز امدادی کاموں میں بھی اختیار کیا جاتا ہے ۔ کالام میں جو سیاح پھنس گئے تھے ، انہیں پانچ دس گھنٹے میں وہاں سے ریسکیو کرلیا گیا۔ ان کے لیے پانی ، بسکٹ اور جوس بہترین تھا تاہم ان کے لیے خیمے اور دیگر ضروریات کا سامان مہیا کرنا احمقانہ ہوتا ۔
سندھ میں دو طرح کے متاثرین ہیں ۔ ایک بارش کے متاثرین اور دوسرے سیلاب کے متاثرین ۔ بارش کے متاثرین گزشتہ بیس روز سے موجود ہیں۔ ان کے شہروں اور دیہاتوں میں چار چار فٹ پانی جمع ہے اور یہ وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔ سیلاب کے متاثرین ایک ہفتے پرانے ہیں کہ سیلاب پہنچا ہی اب ہے ۔
بارش کے متاثرین زیادہ عرصے تک اپنے گھروں سے باہر نہیں رہیں گے ۔ جیسے ہی ان کے گھروں کے باہر سے پانی نکلے گا، یہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن کے مہمان ہیں ۔ سیلاب کے متاثرین کا معاملہ دوسرا ہے کہ انہیں اپنے علاقوں میں پانی کے خشک ہونے کا مہینوں انتظار کرنا پڑے گا۔
اب کرنے کا پہلا کام کیا تھا ؟ سب سے پہلے قومی یا صوبائی ڈزآسٹر منیجمینٹ اتھارٹی drone mapping کرتی ۔ ان متاثرین کے لیے قریب ترین بلند اور خشک جگہوں کا انتخاب کرتی ، ان کی ضروریات کا تخمینہ لگاتی اور انہیں وہیں ٹھیرانے کا انتظام کرتی ۔
ان کی پہلی ضرورت سر چھپانے کی جگہ کے بعد صاف پانی کی فراہمی اور مناسب تعداد میں واش روم کا انتظام تھا ۔ مدد کرنے والے سارے افراد اور این جی اوز کو ان کی استطاعت کے مطابق لوکیشن دی جاتی اور درکار سامان کی فہرست دی جاتی ۔ یہ این جی اوز یا مخیر حضرات دی گئی لوکیشن پر ایک تندور لگاتے ، فائبر کے پانی کے ٹینک نصب کرتے ، واش روم بناتے اور وہاں پر موجود متاثرین میں سے رضاکار منتخب کرکے انہیں اپنی مدد آپ کے تحت کام سونپتے ۔ قریب ترین مقام سے ایل پی جی سلنڈر لیتے ، تندور لگاتے اور دال ، لوبیا یا چنے کا سالن اور روٹی کھانے کو مقامی رضاکاروں کی مدد سے فراہم کرتے ۔ اسی طرح قریب ترین مقام سے صاف پانی کے ٹینکر کا انتظام کرتے ۔گڑھا کھود کر کچرا ٹھکانے لگانے کا انتظام کرتے ، اس طرح شہر سے بہت سارے افراد جانے سے بچتے اور وہ اپنی توانائیاں یہیں پر کسی اور کام میں صرف کرتے ۔ متاثرہ مقامات پر شہر سے گئے ہوئے افراد کے کھانے کا دباو کم ہوتا اور کم از کم بجٹ میں متاثرین کے کھانے کا انتظام ہوتا ۔
یہ متاثرہ لوگ منرل واٹر اور بسکٹ کھا کر کتنے وقت گزارا کرلیں گے اور پھر یہ عام زندگی میں اس کے عادی بھی نہیں ہیں ۔ اس دوران کوشش کی جاتی کہ ان کے علاقوں سے پانی نکل جائے اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی ہوسکے ۔ واپسی کے وقت انہیں ایک ماہ کا خشک راشن دیا جاتا ۔
سیلاب متاثرین کو چونکہ زیادہ عرصے باہر رہنا ہے تو ان کے لیے فائبر کے عارضی ٹھکانوں کا بندوبست کیا جاتا اور کھانے پینے کے لیے وہی کام ہوتا جو بارش کے متاثرین کے لیے تھا ۔
اس وقت کیا صورتحال ہے ۔ کیا قومی و صوبائی ڈزآسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، کیا فوج ، کیا الخدمت جیسی تجربہ کار این جی او ، کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور کیا ضلعی انتظامیہ ، سب ایک ہی رخ پر عجیب ہڑبونگ کا شکار ہیں ۔صوبائی حکومت اور سرکاری افسران نے تو اسے لاٹری سمجھ لیا ہے اور کورونا کی طرح سیکڑوں ارب روپے ہڑپ کیے جارہے ہیں ۔ دیگر این جی اوز نے اسے اپنے ڈونرز سے پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔
کوئی سمجھ سکتا ہے کہ آج کے دور میں اس طرح بھی ریلیف کا کام کیا جاسکتا ہے ، جس طرح سے ہورہا ہے ۔ صاف پانی کی عدم فراہمی اور واش روم نہ ہونے کے سبب متاثرین میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں ۔ جتنے افراد بارش و سیلاب سے نہیں مرے ، اس سے زیادہ وبائی امراض سے مرجائیں گے۔
بات یہ نہیں ہے کہ کام کرنے کا کوئی نیا ڈھنگ میں بتا رہا ہوں ، بات یہ ہے کہ اس سے سب ایکسپوز ہوجائیں گے ۔ صوبائی حکومت بھی ، آفت سے نمٹنے کے ادارے بھی اور این جی اوز کے دعوے بھی ۔ اس لیے سب کو موجودہ طریق کار ہی سوٹ کرتا ہے ۔
آخر بلوچستان اور سندھ میں اتنی تباہی کیوں ؟ اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔