(تحریر :مسعود انور)
غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کو پاکستان میں تباہ کاری کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس برس پاکستان میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں جس کے باعث سیلاب آیا اور یوں پاکستان تباہی کا شکار ہوا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو آج یہ صورتحال دیکھنے کو نہ ملتی ۔ کیا ایسا ہی ہے ۔
سب سے پہلے سیلاب والے معاملے کو دیکھتے ہیں ۔ دریائے کابل کے علاوہ پاکستان کے سارے دریا کشمیر سے پھوٹتے ہیں اور یہ بذریعہ بھارت پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ۔ اگر سیلاب آتا تو جس جس مقام سے یہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں وہاں سے لے کر آخر تک دریاوں کے دونوں کنارے تباہی کا شکار ہوتے۔ مگر عملی طور پر ایسا ہوا نہیں ۔ بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے والے کسی دریا میں سیلابی صورتحال نہیں تھی ، یہی وجہ ہے کہ 2010 کے برعکس وسطی پنجاب میں کوئی تباہی نہیں ہوئی ۔اسی طرح کشمیر میں بھی کوئی تباہی نہیں ہوئی ، جہلم و نیلم پرسکون بہتے رہے بلکہ جہلم کا پانی تو بھارت نے کشن گنگا کے مقام پر ڈیم بنا کر روکا ہوا ہے اور اس میں پانی نارمل سے بھی کم تھا۔ تباہی ہوئی تو بلوچستان میں ہوئی جہاں پر برساتی ندیاں اور نالے تو موجود ہیں مگر کوئی دریا نہیں تھا ۔ تباہی ہوئی تو سندھ کے شہروں میں ہوئی جہاں پر سیلابی پانی داخل نہیں ہوا ۔
سیلابی پانی سے اگر کہیں پر تباہی ہوئی تو وہ سوات تھا یا نوشہرہ ۔ اس کی وجہ بھی قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی ہوس تھی ۔ کراچی ہو یا اورکوئی مقام تجاوزات نے آفت ڈھا دی ہے ۔ بدعنوان عناصر کی مدد سے قبضہ مافیا نے پانی کے قدرتی بہاوپر بستیاں بنا دی ہیں جو ہر مرتبہ تباہی کا باعث بنتی ہیں ۔ کالام میں دریائے سوات پر تجاوزات پھرسے قائم کردی گئی ہیں جس نے دریا کے پاٹ کو چھوٹا کردیا ۔ 2010 میں جو مقامات سیلاب سے تباہ ہوئے تھے ، یہ تجاوزات وہیں پر ہیں ۔ اس سے یہ تجاوزات بھی تباہ ہوئیں اور ان کی وجہ سے دریا میں طغیانی بھی پیدا ہوئی ۔ سوات میں مشہور قول ہے کہ دریا کے گول پتھر دریا کے انڈے ہیں ، اور دریا سال میں ایک مرتبہ انہیں سینچنے ضرور آتا ہے ۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ جہاں تک گول پتھر موجود ہیں ، وہاں تک پانی ضرور آئے گا تو پھر وہاں پر تعمیرات کیوں ۔
کراچی میں سعدی ٹاون اور نیو ناظم آباد بھی پہاڑوں سے آنے والے پانی کی نکاسی کے قدرتی بہاوکے راستے میں بنا دیے گئے ہیں اور ہر مرتبہ یہ تباہی کا شکار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح نارتھ ناظم آباد کے بلاک بی اور ایف کی درمیانی سڑک پانی کے قدرتی بہاو پر بنی ہوئی ہے اور ہر مرتبہ یہاں پر کئی کئی فٹ پانی جمع ہوتا ہے ۔ چونکہ اس پانی کو نکاس کا راستہ دستیاب ہے ، اس لیے جلد ہی یہ پانی ختم بھی ہوجاتا ہے ۔
جنوبی پنجاب اور سندھ میں کچے کا علاقہ اسی لیے چھوڑا گیا تھا کہ سیلابی پانی کو نکاس کا راستہ مل سکے ۔ یہ قدیم طریقہ تھا کہ جب پانی اتر جاتا تو یہاں پر کاشت کاری کی جاتی مگر ہر برس جون سے قبل ہی یہ علاقہ خالی کردیا جاتا ۔ مگر اب یہ علاقہ خالی کرنے کے بجائے یہاں پر پختہ تعمیرات کی جاتی ہیں اور ان ہی علاقوں کے باسی سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں ۔
سندھ میں سیلاب سے دوسری تباہی منچھر جھیل میں کٹ لگانے سے ہوئی ۔ منچھر جھیل کی کہانی بھی دردناک ہے ۔ تازہ پانی کی یہ جھیل دنیا کی چند بڑی جھیلوں میں شامل ہے ۔ 1932 میں انگریز نے یہ جھیل اس لیے مصنوعی طور پر بنائی تھی کہ اس میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا جو سال بھر آس پاس اور نیچے کے علاقے میں کام آئے گا ۔ ستم ظریفوں نے اس میں 1982 میں سیم کا پانی رائٹ آوٹ ڈرین منصوبے کے تحت ڈال دیا ۔ اب ا س کا پانی قابل استعمال نہیں رہا ۔
اس پر اعلیٰ عدالتیں کئی مرتبہ حکم جاری کرچکی ہیں مگروفاقی و صوبائی حکومت کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ جب یہ معلوم ہے کہ اس میں دریا کا سیلابی پانی آتا ہے تو پھر اس کی نکاسی کا ذریعہ بھی اسپل وے کے ذریعہ ہونا چاہیے ، یہ ہر مرتبہ کٹ کیوں لگایا جاتا ہے اور پانی کا یہ عظیم ذخیرہ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا ۔ یہ بھی ملین ڈالر کا سوال ہے ۔
یہ تو تھی سیلاب کی صورتحال ۔ سیلابی پانی ابھی دو دن پہلے ہی کوٹری سے گزرا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منچھر جھیل کے علاوہ سیلاب نے وہ تباہی کہیں نہیں پھیلائی ، جس کا شور و غوغا ہے ۔ تو پھر یہ سندھ ، بلوچستان پانی میں کیوں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ذرا غور کریں تو پتا چلے گا
علاقے دریا میں سیلابی ریلا آنے سے پہلے سے ڈوبے ہوئے ہیں اور سیلابی پانی میں نہیں ڈوبے بلکہ بارش کے پانی میں ڈوبے ہیں ۔ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔