کراچی ( سٹی رپورٹر )
کراچی کو پانی کی فراہمی کا میگا پروجیکٹ K-4 کے 8 میں سے پانچ منصوبوں کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو مل گیا ہے۔تین فلٹریشن پلانٹس کا ٹھیکہ پاکستانی کمپنی نے حاصل کیا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر عبدالرزاق داود کی کمپنی ڈیسکون ٹھیکہ حاصل کرنے میں ناکام رہی جس میں پانچ دیگر کمپنیاں میں شامل تھیں۔ڈیسکون دو پمپنگ اسٹیشن کی تعمیرات کا ٹھیکہ پہلے ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کی تصدیق واپڈا نے بھی کردی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف منصوبہ کا افتتاح دو مرتبہ تاریخ دینے کے باوجود نہ کر سکے۔منصوبہ دسمبر 2024 میں مکمل ہوگا۔منصوبہ کی تعمیرات کی مدت 18 سے 20 ماہ رکھی گئی ہے۔اس سے قبل تعمیرات دسمبر 2023ء میں مکمل کرنا تھی۔پہلے 9 مئی پھر 26 مئی کو افتتاحی تقریب کا انعقاد کرنا تھا۔چینی کمپنی کی وجہ تاخیر کا باعث بنا۔واپڈ ا نے 8 مختلف حصوں میں منصوبہ کا ٹھیکہ دیا ہے،جن میں 110 کلومیٹر پریشر پائپ کی تیاری کے ساتھ تنصیب کا کام بھی چائنا ہاربر کمپنی کو دو منصوبوں کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جو 70ا رب روپے میں الاٹ کیا گیا ہے۔دو پمپنگ اسٹیشن کی تعمیرات کے ساتھ ڈسکون کمپنی کو عملے کی کالونی کے ساتھ سڑک کی تعمیرات کا ٹھیکہ بھی الاٹ ہوا ہے۔میگا پروجیکٹ K-4 کے تین فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بھی چینی کمپنی ک27 ارب روپے میں دیدیا گیا ہے،جن میں دھابے جی اور منگھوپیر فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بالترتیب 8.48 ارب، 8,359 ارب روپے اور ایسٹ ویسٹ فلٹر پلانٹ کا ٹھیکہ چینی کمپنی نے 11.6ارب روپے میں حاصل کیا ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیوں نے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔ جس کا وزیر اعظم شہباز شریف عنقریب باقاعدہ افتتاح کریں گے۔یاد رہے کہ سندھ حکومت نے زیادہ سے زیادہ کک بیک کیلیئے میگا پروجیکٹ K-4 کا روٹ تبدیل کردیا گیا ہے۔نہروں کی کھدائی اور اس کے روٹس پر تعمیراتی کام کا استعمال اب نہیں ہوگا۔روٹ کی تبدیلی سے میگا پروجیکٹ کے 12 ارب روپے ڈوب جانے کا خدشہ ہے۔منصوبے کے کنسلٹنٹ کمپنی ٹیکنو انٹریشنل اور نیشنل واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)کی جانب سے ٹھیکے کی جلد بازی کرنے میں کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں کہ اگر ملک میں عمران خان کی حکومت امریکہ کے اشارے پر تبدیل ہوئی ہے تو اتنے بڑے ٹھیکے چینی کمپنی کیوں الاٹ کیئے گئے ہیں۔واپڈا اور پلاننگ کمیشن کے مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ میگا پروجیکٹ K-4 کی تعمیرات میں سب سے زیادہ خرچ پریشر پائپ پر آئے گا جو تقریبا 70 ارب روپے کا ہے۔دو پمپنگ اسٹیشن 15ارب روپے، تین فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ 27 ارب روپے یعنی سول و الیکٹریکل اور میکنکل ورکس پر مجموعی طور 46ار ب روپے اور کنسلٹنٹ کمپنی کو ایک ارپ 18 کروڑ روپے مختص کیئے گئے ہیں جبکہ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اخراجات 50 سے 55 ارب روپے سے ذیادہ نہیں آتے۔
اس کا کک بیک اور کمیشن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اعلی سطح پر پہلے طے ہوچکا ہے جبکہ واپڈا کیلیئے اس منصوبہ کی عملدرآمد و نگرانی کے کام کے معاوضے کی مد میں 8 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ میگا پروجیکٹ K-4 کا ابتدائی تخمینہ 650 ملین گیلن یومیہ کا پی سی ون کے اخراجات 260 ارب روپے لگایا گیا تھا،لیکن اب نئے منصوبے میں پہلے فیز میں 260 ملین گیلن یومیہ پانی کے منصوبہ پر 126 ارب روپے تخمینہ لگایا ہے اس بارے میں وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان باہمی معاہدہ ہوگیا ہے۔منصوبے تین فیز میں مراحلے وار مکمل کیا جائے گا۔پہلا منصوبہ دو سال میں یعنی دسمبر 2024ء تک مکمل کرنا ہے دیگر منصوبہ پانچ یا سات سال لگنے کا امکان ہے۔منصوبہ 650 کروڑ گیلن کے بجائے پہلے مراحل میں 260 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے جس کی لاگت پر 126 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ پہلے یہ منصوبہ صرف 25 ارپے مالیت کا تھا جو 2016 سے 2018 میں مکمل ہونا تھا۔ڈیزائن و نقشہ میں روٹس کی تبدیلی اور کنھجر جھیل کی ترقی کسی اسٹاک ہولڈر سے مشاورات اور جیو گرافک کے بغیر کی گئی ہے۔ نیا ڈیزائن و نقشہ عثمانی اینڈ کمپنی کا چربہ قرار دیا جارہا ہے جو انہوں نے پچھلی حکومت کو دیا تھا جس کے دیئے ہوئے نقشے کو انہیں بتائے بغیر اپ گریڈ کیا گیا ہے جو شدید بددیانتی ہے۔ میگا پروجیکٹ K-4 کی نئی کنسلٹنٹ کمپنی ٹیکنو انٹریشنل اور نیشنل واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے جلد بازی کے دوران ماضی کی غلطیوں کے ساتھ قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیئے۔واپڈا کی جانب سے اس اہم پروجیکٹ میں فاش غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کی اجازت دینے پر ماہرین نے اسے غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔یاد رہے کہ اسٹیل پائپ سے پانی چوری، ضائع اور غیر قانونی کنکشن کا خطرہ نہیں ہوگا۔پائپ میں سوارخ بھی نہیں ہوسکتا۔پریشر پائپ کا تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔یہ اقدام DHA فیز نائن اور بحریہ ٹاون کراچی میں پانی کی چوری ہونے کی خدشات کے پیش نظر ڈیزائن کیا گیا ہے۔واپڈا اور کنسلٹنٹ حکام کا کہنا تھا کہ پانی کی فراہمی کو ایک پمپنگ اسٹیشن سے سپلائی کیا جائیگا۔K-4 منصوبے کے کنسلٹنٹ کمپنی کا کہنا تھا کہ کراچی کے پانی کو چوروں سے بچانے کے لئے اسٹیل پائپ کا انتخاب کیا گیا ہے، اس میں نہ رساو کا خطرہ ہے نہ درمیان میں غیر قانونی کنکشن ڈال سکیں گے نہ پانی ضائع ہونے کا اندشہ ہوگا۔پمپنگ کے ذریعہ پانی سپلائی ہو گا۔بجلی کے بریک ڈاون کی وجہ سے پائپ پٹھنے کا خطرہ یا امکانات بھی نہیں ہوں گے۔اوپن نہر میں پانی کی حفاظت نہیں ہو سکتی نہ چوری کا سدباب ممکن ہے۔پائپ لائن کی وجہ سے روٹس تقریبا سیدھا کردیا گیا ہے اب راستہ بھی کم کردیا گیا ہے۔تمام روٹس کی تبدیلی سندھ حکومت کی ایما پر کی گئی تھی۔بھوگس اسٹڈیز اور سروے کے نام پر دھوکہ فراڈ اور جعلسازی کنسلٹنٹ کمپنی عثمانی اینڈ کمپنی نے کی ہے جس نے منصوبہ کے ساتھ ساتھ کراچی کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی پر بھی ظلم کیا ہے جس میں سندھ حکومت برابر کی شریک جرم ہے۔کینھجر جھیل سے مقام A سے پانی لینے کی منظوری لی گئی تھی لیکن اچانک پلان بی پر منتقل کیا گیا اور جب کنٹریکٹر ایف ڈبلیو او نے کام کرنے کا آغاز کیا تو پلان C کے مقام سے گیٹ وے بنانے کا نقشہ پیش کردیا گیا. سندھ گورنمنٹ تمام کام کی نگرانی کرے گی ۔اور کراچی کی تعمیر وترقی میں کلیدی کام کر رہی ہے ۔