اسلام آباد۔(کامرس رپورٹر):سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا پر منڈلاتی موسمیاتی خطرات کی تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اتوار کو یہاں عائشہ عبداللہ بٹ کی قیادت میں خواتین کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس کے مطابق افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان کے پہاڑی علاقے ہندو کش۔ہمالیہ میں موسمیاتی تغیرات کے اثرات دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلیشیئرز موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے اہم اشارے ہیں اور اس خطے میں دنیا کے کئی بڑے گلیشیئرز موجود ہیں جو سندھ، برہم پترا اور گنگا کے دریائی علاقوں کیلئے پانی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہائیڈرولوجیکل سائیکل کو متاثر کرتی ہے جس سے پانی کی دستیابی اور طلب دونوں متاثر ہوتے ہیں اور پانی کی کمی کے ساتھ اس کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 2014 میں اپنی رپورٹ میں بھی جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی نشاندہی کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ صدی کے مقابلے میں جنوبی ایشیا میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.75 سینٹی گریڈ اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے، اگر دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ٹھوس کوششیں نہ کی گئیں تو اس کے نتائج سے جنوبی ایشیا کو بہت زیادہ معاشی، سماجی اور ماحولیاتی نقصان پہنچے گا۔
افتخار علی ملک نے کہا کہ مالدیپ سارک کے سب سے زیادہ کمزور رکن ممالک میں سے ایک ہے اور اگر گلوبل وارمنگ پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بحر ہند کے بڑھتے ہوئے پانی کے نیچے ڈوب سکتا ہے اور پھر سارک کے ممالک سات رہ جائیں گے۔
بہترین سی ای او کا ایوارڈ حاصل کرنے والی وفد کی رکن رامین کاشف کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اس خطرے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات بنگلہ دیش کے اطراف میں موجود بھارتی ریاستوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ اقدامات نہ کئے گئے تو چھ ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا کی مجموعی معیشت 2050 تک 1.8 فیصد سالانہ اور سال 2100 تک اوسطاً 8.8 فیصد سالانہ تک سکڑ سکتی ہے۔
رامین کاشف نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان بھی زیادہ پیچھے نہیں ہیں، اس تشویشناک اور خطرناک صورتحال میں سارک کو بیدار ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اسے سنبھلنے میں دیر ہو جائے کیونکہ پانی کی قلت، خشک سالی، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور سونامی ملکی یا علاقائی سرحدوں کے پابند نہیں ہیں