کراچی( بیورو رپورٹ ) ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں چاہتے،، 28 اگست سے پہلے حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے، سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بنائی گئی حلقہ بندیاں قانون اور آئین کے منافی ہیں، کراچی اور حیدرآباد میں حلقہ بندیاں کر کے لسانیت کو فروغ دیا گیاہے۔ایم کیوایم پاکستان کے مرکز بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے28 جولائی کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں انتخابی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم بلدیاتی انتخاب کی تاریخ میں ایک دن بھی تاخیر نہیں چاہتی، سندھ کے شہری علاقوں میں کی گئیں حلقہ بندیاں خلاف قانون ہیں ، کراچی اور حیدرآباد کی اکثریت کو غیر قانونی طریقے سے اقلیت میں بدل دیا گیا ، لسانی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی گئیں، مردم شماری میں ہمیشہ کراچی کی آبادی کو کم دکھایا گیا، کراچی کے عوام کہاں جائیں کس سے فریاد کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں رجوع کیا یہ کھلی دھاندلی ہے، پچھلی بار بارش کی بنیاد پر الیکشن ملتوی کیا۔ ہم کورٹ منصفانہ انتخابات کے لیے گئے تھے، ان حلقہ بندیاں کا مقاصد شہریوں علاقوں کا مین ڈیٹ چوری کرنا تھا۔خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ میں وزیراعظم صدر مملکت سے سوال کرتا ہوں کہ ہم انصاف کے لئے اور کہاں جائیں؟ گزشتہ ہر مردم شماری میں شہری علاقوں میں لوگوں کو کم دکھایا گیا ہر بار ڈنڈی ماری گئی اور اب ڈنڈا مارا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارا مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں ہے کہ قانون کے مطابق مردم شماری کریں مہاجروں کو صحیح سے گنیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو باتیں سپریم کورٹ نے مانیں وہ حکومت بھی مانے، نہیں تو 28 اگست کے نتائج ہم نہیں مانیں گے۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ ہماری ووٹرز لسٹوں میں بھی دھاندلی کی گئی ہیں، 28 اگست سے پہلے حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ایسی حلقہ بندیاں اور جعلی ووٹر لسٹوں سے بلدیاتی انتخاب سے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت کے پاس اپنے مینڈیٹ سے زیادہ اختیارات ہیں، گزشتہ 14 سالوں سے سندھ پر ایک حکومت نافذ ہے۔رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ڈی لمٹیشن اور ووٹر لسٹ کے ذریعے آدھا گنا گیا اور نمائندگی 25 فیصد کردی، ایسے میں شہری علاقوں میں ہونیوالے انتخابات کی کیا حیثیت ہوگی، ایسی حلقہ بندیوں اور جعلی ووٹر لسٹوں پر انتخابات عوام قبول نہیں کرینگے، ہماری تیاری مکمل ہے، ہمارے لوگ تیار ہیں، ہم بلدیاتی انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے لیکن ہمیں مدت انصاف کے حصول کیلیے چاہیے، ہمارا مطالبہ ہے کہ دیر ہو لیکن درست ہو۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ سازش کرکے چرایا جارہا ہے، حلقہ بندیوں پر ہم الیکشن کمیشن کے پاس بھی گئے، سپریم کورٹ میں مقدمہ لیکر گئے تو تمام اعتراضات کو جائز سمجھا گیا، اس کے باوجود کہا گیا کہ الیکشن سر پر ہیں تو اسی حلقہ بندیوں میں ہونے دیا جائے، سوال کرتا ہوں اپنے حق کے لئے کہاں جا کر مقدمہ رکھیں؟۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک بار پھر سپریم کورٹ میں رجوع کیا یہ کھلی دھاندلی ہے، پچھلی بار بارش کی بنیاد پر الیکشن ملتوی کیا۔ ہم کورٹ منصفانہ انتخابات کے لیے گئے تھے، ان حلقہ بندیاں کا مقاصد شہریوں علاقوں کا مین ڈیٹ چوری کرنا تھا۔خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ میں وزیراعظم صدر مملکت سے سوال کرتا ہوں کہ ہم انصاف کے لئے اور کہاں جائیں؟ گزشتہ ہر مردم شماری میں شہری علاقوں میں لوگوں کو کم دکھایا گیا ہر بار ڈنڈی ماری گئی اور اب ڈنڈا مارا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارا مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں ہے کہ قانون کے مطابق مردم شماری کریں مہاجروں کو سہی سے گنیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جو باتیں سپریم کورٹ نے مانیں وہ حکومت بھی مانے، نہیں تو 28 اگست کے نتائج ہم نہیں مانیں گے۔ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ ہماری ووٹرز لسٹوں میں بھی دھاندلی کی گئی ہیں، 28 اگست سے پہلے حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ ایسی حلقہ بندیاں اور جعلی ووٹر لسٹوں سے بلدیاتی انتخاب سے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔