کراچی ( کاشف گرامی سے)
موسیقار خیام صاحب کی آج 4 برسی ہے ۔ان کا تعلق ایک ایسے مسلمان پنجابی خاندان سے تھا جہاں موسیقی کو ممنوع سمجھا جاتا تھا۔خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا چشتی سے لاہور میں حاصل کی تھی
انہوں نے موسیقی میں اپنے کیریئر کا آغاز 17 سال کی عمر میں کیا، جبکہ فلمی زندگی کا آغاز 1953میں فلم ‘فٹ پاتھ’ سے کیا۔خیام کے سُر کا سفر اداکاری کے شوق میں گھر چھوڑنے سے شروع ہوا۔ وہ ضلع جالندھر کے ایک متدین گھرانےمیں پیدا ہوئے، جس کا ماحول مذہبی، تعلیمی اور ادبی تھا۔ مگر ان کو فلم دیکھنے اور اداکار بننے کی چاٹ لگ گئی تھی۔ان کی دھنوں میں شاعری اور بول، گلوکار کی آواز اور، بلکہ سننے والوں کی توجہ کو جس تناسب سے برتا گیا ہےوہ انہیں کا خاصہ ہے۔ فُٹ پاتھ کے گیت شامِ غم کی قسم کو اگر غور سے سنیے تو کھلے گا کہ اس کی موسیقی میں ڈھولکی، طبلے یا پکھاوج وغیرہ کی سنگت نہیں ہے گو کہ اس زمانے میں سنگیت کا تصور ان کے بغیر محال تھا۔انھوں نے اپنے پچاس سے زائد برسوں پر پھیلا ہوئے فلمی کیریئر میں کچھ اوپر پچاس فلمیں کیں۔ وہ چاہتے تو سودو سو بھی کرسکتے مگر پھر بھرمار کے کام اور ان کے لطیف کام میں فرق ہی کیا رہتا۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی مرتب کی ہوئی ساڑھے پانچ منٹ کی ایک دُھن یعنی فلم امراؤ جان ادا میں اخلاق محمد خان شہریار کی غزل’دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے’بہت سوں کے عمر بھر کے کام پر بھاری ہے۔ جب انہوں نے ہدایتکار مظفر علی سے امراؤ جان کی موسیقی ترتیب دینے کی حامی بھری تو ان کے ذہن میں تھا کہ اس سے کچھ عرصہ قبل اسی موضوع پر کمال امروہی کی پاکیزہ اور ماسٹر غلام محمد کی دی ہوئی اس فلم کی موسیقی زبردست کامیابی حاصل کر چکے تھے۔
یہ خیام کا فن تھا کہ انہوں نے قدامت کو یوں جدت دی کہ گویا لافانی کر دیا۔ اگر خیام نے صرف ایک دھن بنائی ہوتی تو وہ تب بھی اسی مرتبے پر فائز ہوتے جس پہ کہ ہوئے۔ اور وہ دھن تھی میر تقی میر کی غزل کی جوانہوں نے ساگر سرحدی کی فلم بازار کے لیے بنائی۔ میر کی غزل
مطلع تو یہ ہے کہ
فقیرانہ آے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو دعا کر چلے
انہیں 1981 کی کامیاب فلم ‘امراؤ جان ادا’ کی موسیقی کے لیے بھارتی نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
انہوں نے ‘امراؤ جان ادا’ کے علاوہ ‘آخری خط’، ‘کبھی کبھی’، ‘دل ناداں’، ‘درد’ اور ‘رضیہ سلطانہ’ کی موسیقی بھی دی۔