پاکستانی فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے دوران ملک سے سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا قلع قمع کر دیا تھا۔ ان میں سے مؤخر الذکر آپریشن اب بھی جاری ہے۔ جس کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ وہ دہشت گردجو ان آپریشنز کی وجہ سے زیر زمین چلے گئے تھے ان کا پتہ لگا کر ان کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ یہ دونوں ہی آپریشن اس قدر موثر تھے کہ ان کے بعد دہشت گردوں کا سر اٹھانا قرین قیاس تو نہیں تھا۔ لیکن سوات جہاں طالبان کبھی شہر کے چوک میں کھلے عام پھانسیاں دیا کرتے تھے، وہاں دوبارہ دہشت گرد نہ صرف دیکھے گئے بلکہ8۔ اور9۔ اگست کی درمیانی شب کو ایک ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس کے دوران مٹہ کے ایک تھانے پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا۔اس واقعے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے کچھ لوگوں نے ایک ڈی ایس پی سمیت چار سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنایا تھا۔ جنھیں بعد ازاں ایک جرگے کی مدد سے بازیاب کرایا گیا۔اس مبینہ وقوعے کے ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس ڈی ایس پی پیر سید زمین پر زخمی حالت میں پڑے ہیں جبکہ دو سول کپڑوں میں ملبوس افراد کے ہاتھ پیچھے بندھے ہیں۔اس واقعے کے بارے میں سوات پولیس ترجمان کا موقف ہے کہ مٹہ کے پہاڑی علاقے میں کچھ شرپسندوں کے خلاف پولیس نے آپریشن کیا جس میں ڈی ایس پی زخمی ہوگئے تھے۔گویا پولیس نے اس واقعے کو گویا ماننے سے ہی انکار کردیا تھا۔ساتھ ہی آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاں انصاری نے اس واقعے کے بعد کہا تھاکہ سوات میں طالبان کی واپسی میں حقیقت نہیں اور طالبان کے قبضے کا تاثر ٹھیک نہیں۔ذمہ داران کی وضاحت کے بعد ان کا موقف ہی ماننا چاہئے، لیکن اس کے باوجود خوف کے خدشات بدستور جاری رہے۔ساتھ ہی سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے۔افسوسناک بات یہ ہے ملک میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور نواز لیگ کے درمیان جو سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔ اس سے یہ معاملہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ صوبائی حکومت ایک طرف یہ کہہ رہی ہےکہ کالعدم ٹی ٹی پی سے جو معاہدہ کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں خیبرپختونخوا حکومت کو لاعلم رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزرا سے جب اس معاملے پر بات کی جاتی ہے تو احسن اقبال جیسے سینئر وزیر اس پر صورتحال کو واضح کرنے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی واپسی خیبر پختونخوا حکومت کی ناکامی ہے۔ اس بیان سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سوات میں طالبان موجود نہیں بلکہ وفاقی وزیر کچھ نہ کہہ کر بھی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سوات میں طالبان وارد چکے ہیں۔ اس قسم کی کنفیوژن کو دور کرنے کے لئےپاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو پھر آگے آنا پڑا۔جس نے وضاحت کی کہ سوات میں طالبان کے پھیلاؤ اور موجودگی کی خبروں پر زمینی حقائق کا پتہ لگانے کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ رپورٹس گمراہ کن اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا کہ "گذشتہ چند روز سے کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی وادی سوات میں موجودگی کی خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔ سوات اور دیر کے درمیان آبادی سے دور کچھ پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کی موجودگی کو دیکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے ہیں۔”آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ’پہاڑوں پر ان افراد کی محدود نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ملحقہ علاقوں کی آبادی کی سیکیورٹی کے لئے تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ضرورت کے تحت عسکریت پسندوں سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔” آئی ایس پی آر کی یہ وضاحت بہت جامع ہے جس میں اگر ایک طرف اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایسے جنگجو سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ تو دوسری طرف یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ جن لوگوں کو سوات کے پہاڑوں پر دیکھا گیا ہے، یہ وہ مقامی لوگ ہیں جو افغانستان سے واپس آئے ہیں۔ پاک فوج کے اس ذمہ دار ادارے پر یقین کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ان خدشات کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے جو چند روز قبل ان ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی لوگوں نے باقاعدہ احتجاج کے ذریعے ظاہر کئے۔ ان مظاہرین نے سوات شہر میں مظاہرے کے بعد چند سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ "پہلے تو ہمیں بتایا جائے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکار سول کپڑوں میں کیوں تھے جن کو مٹہ میں یرغمال بنا گیا”۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ اس علاقے میں امن کے علاوہ کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آج ہمارا مال، عزت اور شہرت خطرے میں ہے اور ہم یہ ہونے نہیں دیں گے۔‘مظاہرے میں سوات بھر سے مشران نوجوانوں اور علاقے کی بااثر شخصیات نے شرکت کی مظاہرے کا اہتمام مقامی تنظیم ’سوات اولسی پاثون‘(سوات عوامی تحریک) نے کیا تھا۔رپورٹس کے مطابق شرکاء کو خصوصی طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ مظاہرے میں صرف کالے اور پاکستان کے جھنڈے لائے جائیں کیونکہ یہ مظاہرہ غیر سیاسی اور علاقے میں امن کی خاطر ہو رہا ہے۔ اس ہدایت سے یہ بات کھل کر عیاں ہو جاتی ہے کہ مظاہرین جو ایک دفعہ سوات میں کشت و خون دیکھ چکے ہیں وہ دوبارہ اپنے درمیان ان خونی اقساط کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لئے پولیس اورفوج کی وضاحت اپنی جگہ معتبر ہےلیکن اس کےباوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس رہنا ہوگا تاکہ حالات پر امن رہیں۔ اگر خدانخواستہ کہیں بھی گڑ بڑکا شائبہ بھی ہوتو تدارک میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔