اسلام آباد( کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سندھ میں بعض یوسیز کی آبادی میں فرق 100 فیصد سے زیادہ ہے۔سپریم کورٹ میں سندھ بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندیوں کیخلاف اور دوسرے مرحلے کو روکنے کیلئے درخواستوں پر منگل کو ہوئی جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی صوبائی حکومت کا اختیار ہے، صوبائی قانون پر عملدرآمد کے دوران کچھ سقم نظر آ رہے ہیں، کیا الیکشن کمیشن سقم نظرانداز کرکے اپنی مرضی سے حلقہ بندی کرسکتا ہے؟ بعض یونین کمیٹیوں کی آبادی میں فرق 100 فیصد سے بھی زیادہ ہے، کیا حلقہ بندی کے دوران یونین کمیٹیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حلقہ بندی کا اختیار ایک شق میں الیکشن کمیشن کو اور دوسری میں حکومت کو ہے، سندھ حکومت نے قانون میں بلدیاتی اداروں کا ڈھانچہ بنایا ہے، کیا الیکشن کمیشن حلقہ بندی کے ذریعے ڈھانچہ تبدیل کر سکتا ہے؟۔وکیل ایم کیو ایم فروغ نسیم نے کہا کہ حلقہ بندی میں تعداد کم اور زیادہ ہو سکتی ہے، سندھ حکومت نے یونین کمیٹیوں کی تعداد کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا، اورنگی ٹاو¿ن کی 7 لاکھ آبادی پر میئر کے لیے 7 جبکہ مومن آباد کی 4 لاکھ آبادی پر 9 ووٹ مختص ہیں، سندھ حکومت کی اس سے بڑی دھاندلی اور کیا ہو گی۔سندھ میں بلدیاتی انتخابات کےدوسرے مرحلے میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے وکیل خالد جاوید نے دلائل دیے کہ ایم کیو ایم کی دلیل مان لی جائے تو پورے ملک کی صوبائی و قومی اسمبلی کی حلقہ بندیاں متاثر ہو جائیں گی، اسی اصول کے تحت 2015 میں سندھ حکومت کی حد بندی پر حلقہ بندیاں ہوئیں ایم کیو ایم کے میئر بنے، کراچی کو سب سے زیادہ بلدیاتی حکومت کی ضرورت ہے، کراچی سے آیا ہوں،قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔دوران سماعت ممبر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا روسٹرم پر آ گئیں اور کہا کہ پانچ دفعہ سے بدین سے منتخب ہوتی آ رہی ہوں، ٹھٹہ بدین کا بہت برا حال ہے، ٹھٹہ بدین سے منتخب ہونے کے باوجود میرا ووٹ وہاں سے کراچی منتقل کر دیا گیا۔عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 11:30 تک ملتوی کردی۔