اٹھارویں ترمیم۔کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے۔ مصطفی’ کمال کراچی (بیورورپورٹ) پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نےپاکستان کو اٹھارویں ترمیم کے بعد جس طرح چلایا جا رہا ہے، اس سے پاکستان بند گلی میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ انتظامی اور مالی طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک چلنے کے قابل نہیں رہا۔ اب پاکستان کو ٹھیک کرنے کا پی ایس پی کے علاؤہ کوئی دوسرا آپشن نہیں،صوبائی حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ کہ اگر اٹھارویں ترمیم کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے تو صوبوں سے اٹھارویں ترمیم بھی چھن جائے گی۔ اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو جو اختیارات ملے وہ نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے۔ پاکستان کے آئین میں تین ترامیم کی اشد ضرورت ہے جن میں پی ایف سی ایوارڈ کے ذریعے این ایف سی ایوارڈ براہ راست صوبائی حکومت کے زریعے ڈسٹرکٹ کو منتقل کیا جائے۔ آرٹیکل 140 اے کے تحت بلدیاتی حکومت اور ماتحت محکموں کے اختیارات پاکستان کے آئین میں ناصرف شامل کیے جائیں بلکہ ان کے اختیارات واضح طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرز پر لکھے جائیں تاکہ کوئی وزیر اعلیٰ آئین کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق نا کرسکے۔ تیسری ترمیم کے زریعے بلدیاتی انتخابات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے مشروط کیے جائے تاکہ جمہوریت کو اسکی روح کے مطابق لاگو کیا جاسکے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور خصوصاً حکمران جماعتوں کے کارکنان و ہمدرد اپنی قیادت سے پانی، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، ہسپتال، تعلیمی ادارے، پارک اور سیوریج کے نظام کے نا مانگیں بلکہ ان تمام کے بنانے اور چلانے کا اختیار اور وسائل طلب کریں۔ ہمیں اختیارات کراچی سے کشمیر تک کی گلیوں میں لیکر آنا ہے۔ اگر یوسی کی سطح تک اسکول میں تعلیم اور ٹرانسپورٹ نہ دی جائے تو محلے والوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ خود بلدیاتی نمائندوں کا احتساب کریں کیونکہ جب اختیارات عوام کے پاس ہونگے تو وہ خود اپنے نمائندے کو پکڑ سکتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں لاڑکانہ کے زمہ داران سے ٹیلی فون خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ وفاق سے 56 فیصد پیسے لے کر صوبے نیچے نہیں دے رہے،وفاق کو 44 فیصد میں سے قرضے واپس کرنے ہیں، فوج چلانی ہے جبکہ صوبوں کے یہ مسائل نہیں، وزراء اعلیٰ این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والے پیسوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔سندھ کو 56 فیصد کا 27 فیصد ملتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ہر سال 1 ہزار ارب ملتے ہیں، 200 ارب روپے یہ کراچی سے ٹیکس کے زریعے کماتے ہیں۔1200 ارب روپے سندھ حکومت کی سالانہ آمدنی ہے۔ وزیر اعلیٰ ان 1200 ارب کو اکیلا خرچ کر رہا ہے، نیچے وسائل منتقل نہیں کر رہا۔ہمیں اختیارات کراچی اور کشمور کی گلیوں میں لیکر آنا ہے۔ اگر اسکول میں تعلیم اور ٹرانسپورٹ نہ دیں تو محلے والوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ خود ان احتساب کریں جب اختیارات آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ اپنے نمائندے کو پکڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے آج تک کوئی کرپشن نہیں پکڑی ہے، اگر اختیارات اور وسائل کو یوسی کی سطح تک منتقل کردیے جائیں تو احتساب گلی گلی میں ہوجانے گا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے صرف تعلیم کی مد میں 2300 ارب روپے خرچ کیے، آج سندھ میں ہزاروں گھوسٹ اسکولز اور لاکھوں گھوسٹ ٹیچرز ہیں جسے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ کیا۔ نئے تعلیمی ادارے کھلنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کو بند کیا جارہا، سندھ میں سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو فلاحی اداروں کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے۔ سندھ میں ایک نئی لائن پینے کے پانی کی نہیں ڈالی گئی۔۔