(تحقیق و تحریر: زاہد حسین)
کراچی شہر جوں جوں وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے یہاں کا انفرا اسٹرکچر بھی بڑھتا گیا۔ اولڈ کراچی سٹی جو کبھی لال عمارتوں والے علاقوں تک محدود تھا، اب قیام پاکستان کے بعد کچی اور پکی عمارتوں والی نئی آبادیوں کے باعث خاصا بڑا ہوچکا تھا۔ اور اس وسیع علاقے میں ٹرام سروس کا جال بچھانا اس وقت تقریباً ناممکن تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں بسیں چلیں تو عام شہریوں نے بسوں کا استعمال شروع کردیا، جو ٹرام کے مقابلے میں نہ صرف تیز رفتار تھیں، بلکہ ٹرام جتنے کرائے ہی میں وہ پورے شہر کا سفر بھی کرسکتے تھے۔ ابتدا میں نجی ٹرانسپورٹز نے کراچی میں بسیں متعارف کرائیں، اس کے بعد 1977ء میں اس وقت کی حکومت نے سرکاری بسیں متعارف کرادیں۔
کراچی کے شہریوں کو سفری سہولت فراہم کرنے کی غرض سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ یکم فروری 1977ء کو قائم ہونے والے اس ادارے کو کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا نام دیا گیا۔ کے ٹی سی اگرچہ حکومت کے زیر انتظام کارپوریشن تھی لیکن ایک نجی ادارے کی طرح کام کرتی تھی۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن المعروف کے ٹی سی کو حکومت نے دو سو بسیں دیں، جو شہر کی مرکزی شاہراہوں پر سفر کا بڑا ذریعہ بنیں۔ اس وقت کراچی کی آبادی چھتیس لاکھ سے کچھ زاید تھی۔ یہ دو سو بسیں اتنی بڑی آبادی کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔ لیکن پہلے سے چلنے والی نجی بسیں اور کے ٹی سی کی بسیں مل کر شہریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا بڑا ذریعہ تھیں اور آبادی کے دباؤ کے باعث شہر کی بسیں، خواہ وہ نجی ہوں یا کے ٹی سی کی، ہمشہ مسافروں سے کھچاکھچ بھری جلتی تھیں۔ بعض اوقات بس اتنی بھری ہوئی آتی تھی کہ بس اسٹاپ پر کھڑے لوگ بس کو دیکھتے رہ جاتے اور بے بسی سے دوسری بس کا انتظار کرتے۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے قیام کے بعد جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف بریگیڈیئر سید عبدالقاسم کو اس کا پہلا مینیجنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ ان کے دور میں کے ٹی سی کو حکومت کی جانب سے مجموعی طور پر 344 بسیں دی گئیں،۔ ان بسوں میں سے 200 تو بالکل درست حالت میں تھیں، لیکن 40 بسوں میں ہلکا پھلکا اور 10 میں اچھا خاصا مرمت کا کام تھا۔ ایم ڈی کے ٹی سی نے مزید تاخیر کے بغیر ان بسوں کی مرمت کرائی اور مزید 44 بسیں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔ یوں شہر کی سڑکوں پر 244 بسیں شہریوں کو ڈھو رہی تھی، لیکن 100 بسیں سفر کے لیے زیادہ اچھی حالت میں دستیاب نہیں تھیں۔
اس وقت ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر مواصلات ممتاز علی بھٹو تھے۔ ٹرانسپورٹ کا محکمہ اس وقت وزارتِ مواصلات کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ وزیر مواصلات ممتاز بھٹو نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، سندھ کے دارالحکومت کراچی اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مزید تین سو بسیں لانے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس اقدام سے کے ٹی سی کے فلیٹ میں اضافہ ہوگا اور کے ٹی سی مزید بہتر انداز میں سفری سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوسکے گی۔ ان بسوں کے آنے کے بعد نئے بس روٹس کی منظوری بھی دی گئی۔ نئے روٹس کی منظوری کے ساتھ ساتھ ان روٹس پر کرائے کا تعین بھی کردیا گیا۔ ان بسوں کے کرائے میں طلبہ کے لیے رعایتی کرائے کی بھی منظوری دی گئی۔ کرائے کی رقم ایسی رکھی گئی تھی جسے عام آدمی با آسانی برداشت کرسکے اور مسلسل اس سفری سہولت سے مستفید ہوسکے۔ یہ پہلا موقع تھا جب وفاقی حکومت نے پاکستان کے شہری مراکز کے نقل و حمل کے مسائل کے لیے مستقل اور پائیدار حل فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
کراچی میں یہ بس سروس چلی تو اپنے کم کرائے کے باعث اور ٹرام سروس کی نسبت زیادہ تیز رفتار ہونے کے باعث عوام میں جلد مقبول ہوگئی۔ ملازمت پیشہ افراد اور تنخواہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ طلبہ بھی سفر کے لیے کے ٹی سی کی بسوں کو ترجیح دینے لگے۔ یوں کے ٹی سی کراچی کے عام شہریوں کے لیے سفر کے لیے ترجیحی سواری بن گئی۔ دفاتر جانے والے تو ان بسوں میں سفر کرتے ہی تھے، کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ نے بھی کے ٹی سی کو اپنے تعلیمی اداروں تک جانے اور واپسی کے لیے اپنا پہلا انتخاب بنایا۔ اس کی بنیادی وجہ طلبہ کے لیے کرائے میں خصوصی رعایت تھی۔ یہ رعایت انہیں اپنے تعلیمی ادارے کا کارڈ دکھانے پر دی جاتی تھی۔
شہر بھر میں دوڑتی ان بڑی بڑی بسوں کی مرمت اور انہیں رات کے وقت کھڑی کرنے کے لیے حکومت نے ڈپو قائم کیے اور ان بسوں کے پہلے اور آخری اسٹاپ بھی قائم کیے۔ ان بسوں کی مرمت اور ان کے ٹھہرنے کے لیے شہر بھر میں آٹھ ڈپو قائم کیے گئے۔ جن میں سے تین ڈپو زیادہ بڑے تھے۔ ایک ڈپو کورنگی روڈ پر اس مقام سے قریب قائم کیا گیا تھا، جہاں اس وقت انڈس اسپتال قائم ہے۔ ایک ڈپو ماڈل کالونی میں قائم کیا گیا۔ یہ ڈپو ماڈل کالونی قبرستان کے بالکل ساتھ واقع تھا۔ آج اس جگہ پر رینجرز کا ریجنل دفتر قائم ہے۔ اس ڈپو کے کچھ حصے کو دوبارہ سندھ حکومت نے پیپلز بس سروس میں چلنے والی بسوں کیلئے ڈپو کے طور پر مختص کردیا ہے۔ ایک ڈپو ملیر ہالٹ پر ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے دفتر اور پی ٹی سی ایل کے دفتر اور تربیتی انسٹیٹیوٹ کے درمیان بڑی جگہ پر قائم کیا گیا تھا۔ اس جگہ پر بھی اب رینجرز کا ریجنل دفتر قائم ہے۔ ایک ڈپو قائد آباد کے قریب داؤد چورنگی کے ساتھ واقع تھا، جس کے پیچھے لانڈھی اسٹیشن آج بھی موجود ہے۔ ان ڈپوؤں پر رات کے اوقات میں کے ٹی سی کی بسیں کھڑی کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ ڈپو ان بسوں کے مسافروں کے لیے پہلے اسٹاپ کا کام بھی دیتے تھے اور یہیں ان کی مرمت کا کام بھی انجام پاتا تھا۔
پانچ جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد آپریشنز، ٹرانسپورٹ اور محنت کے قلمدان میر نواز خان مروت کو سونپ دیے گئے۔ اس کے بعد کارپوریشن میں ہزاروں افراد کو ملازمتیں بھی دی گئیں۔
بس کے مسافروں کو ہمیشہ تحریری اعلامیوں کے ذریعے مطلع کیا جاتا تھا کہ اب کون سی بس کس فریکوئنسی کے ساتھ چلائی جائے گی۔ بسوں کے درمیان وقفے پانچ منٹ اور تیس منٹ کے درمیان ہوتے تھے۔ کم سفر والے راستوں کے لیے زیادہ اور زیادہ مقبول راستوں کے لیے کم۔ کے ٹی سی کے ملازمین بھی سخت جواب دہی کے تحت بھرتی کیے گئے تھے۔ کوئی بھی مسافر کارپوریشن کے عملے کی طرف سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا بد سلوکی کے خلاف شکایت درج کرا سکتا تھا، جس پر متعلقہ ملازم کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی کی جاتی تھی۔
کراچی کے شہریوں کیلئے بڑی سہولت بننے والی اس بس سروس کو وقت کے ساتھ ساتھ خسارے کا سامنا ہونے لگا۔ اس کی وجوہات خواہ کچھ بھی رہی ہوں، لیکن یہ خسارہ عوامی سہولت کے چھننے کی بڑی وجہ بنا۔ پھر یوں ہوا یہ خسارہ بڑھنے لگا اور نومبر 1986ء میں یہ خسارہ بیس لاکھ ستتر ہزار روپے اور اس سے اگلے ماہ یعنی دسمبر 1986 میں یہ خسارہ بیس لاکھ بہتر ہزار روپے تک پہنچ گیا۔ پھر نقصان کا یہ سلسلہ جاری رہا جو سندھ اسمبلی کے رکن اسلم مجاہد کے اسمبلی میں خطاب کے مطابق ماہانہ ساٹھ لاکھ پچاس ہزار روپے تک جا پہنچا۔ یہ بات اس وقت شائع ہونے والے انگریزی اخبار نے 6 اکتوبر 1985 کو شائع کی تھی۔ اسی اخبار کی ایک خبر میں رپورٹر عزیز اللہ شریف نے الزام عائد کیا کہ نجی بسوں اور کے ٹی سی کے درمیان یومیہ آمدنی کے اس وسیع فرق نے ظاہر کیا کہ کے ٹی سی میں فنڈز کی چوری کی جاتی تھی۔
گمان غالب ہے کہ اس بڑی سروس کی بری وجہ کرپشن تھی، کیوں کہ اس وقت نجی بسوں کی روزانہ کی کمائی دو ہزار تھی، جبکہ کے ٹی سی کی بس رومیہ چھ سو روپے سے زائد کمائی نہیں کرتی تھی، حالانکہ یہ بسیں مسافروں سے لدی ہوئی چلتی تھیں۔ مسلسل ماہانہ بڑے نقصان کے پیشِ نظر یہ سروس عوام کے لیے بند کردی گئی اور کراچی کے شہریوں کو نجی ٹرانسپورٹرز مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ان بسوں کی بندش کا سب سے بڑا نقصان ملازمت پیشہ افراد اور طلبہ کو ہوا، جو روز ان بسوں میں معقول کرائے پر سفر کیا کرتے تھے۔ ان بسوں کے خاتمے کے بعد شہری نہ صرف کرائے کی مد میں زیادہ رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں بلکہ بجی بسوں اور منی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کی بدتمیزی بھی برداشت کر رہے ہیں۔