اسلام آباد (کورٹ رپورٹر) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کےخلاف 2014 سے زیرالتوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ثابت ہوگیا تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی،تحریک انصاف نے عارف نقوی سمیت 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے، ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یوایس آئی سے بھی فنڈنگ لی گئی ہے،تحریک انصاف نے 8 اکاونٹس ظاہر کیے ،13 اکاونٹس پوشیدہ رکھے، یہ 13 نامعلوم اکاونٹس سامنے آئے ہیں جن کا تحریک انصاف ریکارڈ نہ دے سکی،عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلریشن جمع کروائے،چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اکاونٹس چھپائے، بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے، عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے ۔الیکشن کمیشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 20 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ منگل کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سنایا۔3 صفر سے متفقہ فیصلے میں چیف الیکشن کمیشنر کی جانب سے کہا گیا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔فیصلے میں پی ٹی آئی کو امریکا، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی۔فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سمیت 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے، ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یوایس آئی سے بھی فنڈنگ لی گئی ہے۔فیصلے میں کہاگیاکہ پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں، 351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے۔ فیصلے میں کہاگیاکہ عارف نقوی کی کمپنی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی گئی،یو اے ای کی کمپنی برسٹل انجینئرنگ سروسز سے 49 ہزار 965 ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی۔ فیصلے میں کہاگیاکہ فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نے 8 اکاونٹس ظاہر کیے جبکہ 13 اکاونٹس پوشیدہ رکھے، یہ 13 نامعلوم اکاونٹس سامنے آئے ہیں جن کا تحریک انصاف ریکارڈ نہ دے سکی۔فیصلے کے مطابق سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے، آئین کے مطابق اکاونٹس چھپانا غیر قانونی ہے ۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلریشن جمع کروائے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اکاو¿نٹس چھپائے، بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے والے فنڈز الیکشن کمیشن کی جانب سے کیوں نہ ضبط کیے جائیں،الیکشن کمیشن دفتر قانون کے مطابق باقی کارروائی بھی شروع کرے، فیصلہ کی کاپی وفاقی حکومت کو جاری کی جاتی ہے۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے دائر کیا گیا یہ کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا تھا، اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھاتاہم عمران خان اور پارٹی رہنماوں کی جانب سے اس حوالے سے کسی بھی غیر قانونی کام کی تردید کی جاتی رہی ہے جن کا یہ موقف ہے کہ مذکورہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔مارچ 2018 میں ایک ماہ کے اندر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لینے کےلئے تشکیل دی گئی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے بالآخر 4 سال بعد 4 جنوری کو اپنی رپورٹ جمع کروائی، اس مدت کے دوران اس حوالے سے تقریباً 95 سماعتیں ہوئیں۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی 8 جلدوں پر مبنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی شہریوں اور بیرون ملکی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں سے ذرائع آمدن اور دیگر تفصیلات کے بغیر لاکھوں ڈالرز اور اربوں روپے جمع کرکے فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی اور فنڈز کے اصل حجم اور درجنوں بینک اکاونٹس کو چھپایا۔رپورٹ میں پارٹی کی جانب سے بڑی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بتانے سے انکار اور پی ٹی آئی کے غیر ملکی اکاونٹس اور بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز کی تفصیلات کے حصول میں پینل کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا۔یہ رپورٹ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے جو پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاونٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کروایا گیا۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان 4 سال کی مدت میں اکھٹے کیے گئے فنڈز کے اصل حجم سے 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کم رقم ظاہر کی، سالانہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔رپورٹ میں پی ٹی آئی کے 4 ملازمین کو ذاتی اکاو¿نٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دیے جانے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان کے اکاونٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر ہے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے تمام جماعتوں کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کو اکٹھا کرنے اور ایک ساتھ اس کا فیصلہ سنائے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت حکمران اتحاد کئی روز سے فیصلے کے جلد اعلان کا مطالبہ کر رہا تھا۔