کراچی (کامرس رپورٹر ) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کی جانب سے انٹرسٹ ریٹ میں کاروبار مخالف اور معاشی ترقی کے مخالف 150 بیسس پوائنٹ اضافے پر اپنی گہری مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تاجر، صنعتی اورکاروباری برادری اس فیصلے سے پریشانی کا شکار ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشی سرگرمیوں، پاکستان میں کاروبار کو منافع بخش رکھنے کے چیلنج اور ایکسپورٹ پر اس کے ناگزیر منفی اثرات کے بارے میں شدید تشویش کا شکار ہے؛کیونکہ کاروباری سر گرمیوں میں حکومتی تعاون، مراعات اور سہولیات بھی نا پید ہیں۔عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی اور حکومت کی بجٹ پالیسی ایک دوسرے کے برخلاف ہیں؛جس کے نتیجے میں معیشت بری طرح متاثر ہوگی؛ بشمول کاروباری حالات، صنعتی پیداوار، نجی شعبے کی سرمایہ کاری، برآمدات، روزگار،ریونیو اور اقتصادی ترقی۔عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان میں پالیسی ریٹ اورایکسپورٹ ری فنانسنگ کی شرح میں بڑی کمی نہ کی گئی تو ہم علاقائی ممالک کے ساتھ بھی مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ رسمی اور بینکنگ چینلز کو کاروباروں کی فنانسنگ کی ضروریات کے لیے ان کی رسائی سے دور کرنے سے غیر رسمی معیشت کو فروغ ملے گا اور یہ FATF کے تناظر میں بھی اچھا نہیں ہوگا۔ عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ مہنگائی کی موجودہ لہر کا اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ سے کوئی تعلق نہیں بنتا؛ کیونکہ اس کی وجہ سیاسی صورتحال میں غیر یقینی اور اس کی وجہ سے معاشی پالیسیوں میں کسی سمت کا فقدان ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی سپلائی سائیڈ میں رکاوٹوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس کا پالیسی ریٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی نے واضح کیا کہ حالیہ شرح سود میں اضافے سے پہلے ہی یہ تاجر برادری کا حقیقی مطالبہ تھا کہ پالیسی ریٹ کو بتدریج 12.25 فیصد سے کم کیا جائے تاکہ کاروبار وں کو کم اور سستی شرحوں پر سرمائے کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔لیکن ضرورت کے برعکس، انٹرسٹ ریٹ اب بڑھا کر 13.75 فیصد کر دیا گیا ہے؛ جس سے ملک میں معاشی اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو جائیں گی۔حقیقی عوامل کا خاکہ پیش کرتے ہوئے عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ روپے اور ڈالر کی قدر میں عدم استحکام، سیاسی اور اقتصادی ماحول میں غیر یقینی صورتحال اورپالیسی ریٹ میں اضافہ ایس ایم ایزکو مکمل طور پر کچل دے گا؛ جیسا کہ کاروبار کرنے کی لاگت، کاروبار کرنے میں آسانی، سرمائے تک رسائی، غیر ملکی زرمبادلہ تک رسائی اور منافع بخش انداز میں کاروبار چلانے سمیت سب کچھ ایس ایم ایزکے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ اگر حکام نے فوری مداخلت نہ کی تو بہت سارے کاروباری ادارے دیوالیہ ہو جائیں گے، بہت سے برآمدی آرڈرز پورے نہیں ہوں گے، روزگار کے مواقع کا بڑا نقصان ہو گا اور ٹیکس ریونیو میں کمی آئے گی۔ انہوں نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فوری طور پر مشاورتی عمل شروع کریں۔
کراچی (کامرس رپورٹر ) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کی جانب سے انٹرسٹ ریٹ میں کاروبار مخالف اور معاشی ترقی کے مخالف 150 بیسس پوائنٹ اضافے پر اپنی گہری مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تاجر، صنعتی اورکاروباری برادری اس فیصلے سے پریشانی کا شکار ہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشی سرگرمیوں، پاکستان میں کاروبار کو منافع بخش رکھنے کے چیلنج اور ایکسپورٹ پر اس کے ناگزیر منفی اثرات کے بارے میں شدید تشویش کا شکار ہے؛کیونکہ کاروباری سر گرمیوں میں حکومتی تعاون، مراعات اور سہولیات بھی نا پید ہیں۔عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ مانیٹری پالیسی اور حکومت کی بجٹ پالیسی ایک دوسرے کے برخلاف ہیں؛جس کے نتیجے میں معیشت بری طرح متاثر ہوگی؛ بشمول کاروباری حالات، صنعتی پیداوار، نجی شعبے کی سرمایہ کاری، برآمدات، روزگار،ریونیو اور اقتصادی ترقی۔عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان میں پالیسی ریٹ اورایکسپورٹ ری فنانسنگ کی شرح میں بڑی کمی نہ کی گئی تو ہم علاقائی ممالک کے ساتھ بھی مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ رسمی اور بینکنگ چینلز کو کاروباروں کی فنانسنگ کی ضروریات کے لیے ان کی رسائی سے دور کرنے سے غیر رسمی معیشت کو فروغ ملے گا اور یہ FATF کے تناظر میں بھی اچھا نہیں ہوگا۔
عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ مہنگائی کی موجودہ لہر کا اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ سے کوئی تعلق نہیں بنتا؛ کیونکہ اس کی وجہ سیاسی صورتحال میں غیر یقینی اور اس کی وجہ سے معاشی پالیسیوں میں کسی سمت کا فقدان ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی سپلائی سائیڈ میں رکاوٹوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس کا پالیسی ریٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی نے واضح کیا کہ حالیہ شرح سود میں اضافے سے پہلے ہی یہ تاجر برادری کا حقیقی مطالبہ تھا کہ پالیسی ریٹ کو بتدریج 12.25 فیصد سے کم کیا جائے تاکہ کاروبار وں کو کم اور سستی شرحوں پر سرمائے کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔لیکن ضرورت کے برعکس، انٹرسٹ ریٹ اب بڑھا کر 13.75 فیصد کر دیا گیا ہے؛ جس سے ملک میں معاشی اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہو جائیں گی۔حقیقی عوامل کا خاکہ پیش کرتے ہوئے عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ روپے اور ڈالر کی قدر میں عدم استحکام، سیاسی اور اقتصادی ماحول میں غیر یقینی صورتحال اورپالیسی ریٹ میں اضافہ ایس ایم ایزکو مکمل طور پر کچل دے گا؛ جیسا کہ کاروبار کرنے کی لاگت، کاروبار کرنے میں آسانی، سرمائے تک رسائی، غیر ملکی زرمبادلہ تک رسائی اور منافع بخش انداز میں کاروبار چلانے سمیت سب کچھ ایس ایم ایزکے لیے ناممکن ہو جائے گا۔ عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ اگر حکام نے فوری مداخلت نہ کی تو بہت سارے کاروباری ادارے دیوالیہ ہو جائیں گے، بہت سے برآمدی آرڈرز پورے نہیں ہوں گے، روزگار کے مواقع کا بڑا نقصان ہو گا اور ٹیکس ریونیو میں کمی آئے گی۔ انہوں نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فوری طور پر مشاورتی عمل شروع کریں۔