کراچی (تحریر*آغاخالد)
کراچی کےشہریوں سےگزارش ہےکہ حب ڈیم میں پانی کے ذخیرہ کی گنجائش سے زیادہ پانی آجانےپرمیں نے غالباً 27 جولائی کی شام صورت حال کاتنقیدی جائزہ لینےکی خاطر ڈیم کادورہ کیاتھا اس وقت ڈیم میں کیرتھر کے پہاڑوں سےآنےوالےتیز پانی کےبہاوکےمنظرکودیکھ کرخود میں خوف زدہ ہوگیاتھاکیونکہ حب ڈیم میں اضافی پانی کے اخراج کے غیرفطری طریقہ اور عملہ کی لاپرواہی نے مجھےتشویش میں مبتلا کردیاتھا اضافی پانی کے اخراج کاجورائج النظام میرے علم میں اورگوگل پردستیاب ہے
وہ دوسال قبل مینے تربیلہ اور منگلا میں بھی دیکھاتھاجہاں ہم ایک سرکاری دورےپرگئےتھےاور ہمیں ان دونوں ڈیمز کی انتظامیہ نےتفصیلی بریفنگ بھی دی تھی حب ڈیم اس کےبرعکس تعمیرکیاگیاہے اورزیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ اضافی پانی جس رفتارسے ڈیم کی اخراج کےنظریہ سے تعمیر دیوارسے حب ندی میں گررہاتھاوہ میرے اندازے سے اس کی اونچائی ایک سےڈیڑھ فٹ تھی اور پانی کایہ قد اور رفتارکسی بھی رکاوٹ کوتوڑنےکاسبب بن سکتی ہے مگر زیادہ تشویش کاسبب بندکے سینیرحفاظتی عملے کا جائے وقوعہ سے غائب ہوناتھاصرف دومزدور اور دو بیلدار قسم کے لوگ بند پرموجود تھے بند سے متصل دفترپرچوکیدار تک نہ تھا اور پورا دفتراجاڑ کامنظرپیش کرہاتھامیرے استفسارپربندپرموجود دومناسب وضع قطع کےلوگوں نے اپنا نام یاعہدہ بتانےسے بھی گریز کرتےہوئے دعواکیاکہ بند پر8/10 لوگ تعینات ہیں جبکہ دوافسران نیچے دفتر میں 3 شیفٹوں میں 24 گھنٹے ڈیوٹی دیتےہیں مگران کاکہناتھاکہ یہ سب ابھی کھاناکھانےقریب ہوٹل گئےہیں جوبند سے غالباً ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے گلستان جوہر سے حب ڈیم پہنچتے ہوئےمجھے مغرب ہورہی تھی جس کی وجہ سے میں بند کی تصویریں بھی نہ بناسکا دفتر کےباہرصرف ایک بلب جبکہ 2 اسٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں میرے استفسار پرانہوں نےبتایاکہ ہنگامی حالت میں ڈیم پرلگے سائرن کئی بارچوری اور خراب ہوگئےہیں
اب بھی سائرن خراب ہے ٹیلیفون کی ہاٹ لائن بھی کٹ چکی ہے موبائل سے کام چلایاجارہاہے جس کے سگنل بھی بہت کمزور ہیں کیمرےسرےسے ہیں ہی نہیں وغیرہ وغیرہ توایسےحالات میں اور محکمہ موسمیات کی یکے بعددیگرے خطرناک پیشن گوئیوں سےاگراہل کراچی کوآنےوالےخطرہ سےآگاہ نہ کرتاتومیری اپنےپیشے سےبددیانتی ہوتی لیکن اس کامقصدہرگزشہریوں میں خوف پھیلانانہ تھا مگرممکنہ خطرہ سے آگاہ کرناہرمہذب معاشرہ میں تحسین کی نظروں سےدیکھاجاتاہے مگرہمارےہاں نااہل حکومتیں بدقسمتی سےجرم یاخطرہ کی نوعیت کوکمزور تردکھانےپرساری حکومتی صلاحیتیں صرف کردیتی ہیں ایساہی اس خبرپرہواپہلے حب ڈیم کی حفاظت کےذمہ دارروں نےخبرکوجھوٹاثابت کرنےکے لیے کسی دلیل کے بغیرجعلی یااپنےمحکمہ کےلوگوں سےتوہین آمیز”جھوٹ“ کاٹرینڈ چلوایایہ جادونہ چل سکاتو دوروز کےدوران کئی لوگوں سےفون کروائے جوعام شہری بن کرکرتےرہےپھردوستوں سےسفارشیں کروائیں اورہفتہ کی شب توحب میں تعینات مبینہ کسی حساس ادارے کےکارندےسےفون کروایامیں ان سب کوایک ہی بات کہتارہاکہ محکمہ اس کی تردیدکردے میں اپنے اور ان سب گروپوں میں چلوانے کی ذمہ داری لیتاہوں جنھوں نےمیری خبرکوکاپی کیا ایسا تو نہ ہواالبتہ آج اتوار کوکسی نجی ادارے کےانجنیرنےیہ بیان جاری کیاہےجومثبت ہے اس لیے میں بھی اسے شیئر کرہاہوں اور اپنی خبربھی ہٹارہاہوں اس امیدکےساتھ کہ حب ڈیم کی حفاظت پرمامورذمہ داروں کی نااہلی کام چوری اور اتنےحساس موقع پرلاپرواہی پرسخت تادیبی کاروائی کی جائےگی، شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حب ڈیم کے حوالے سے کل سے سوشل میڈیا پر بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ اور کراچی کے دوست بہت خوف زدہ ہیں۔حب ڈیم واپڈا نے 80 کی دہائی میں کراچی کو پانی کی فراہمی کے لئے تعمیر کیا اور اس کے ڈیزائن اور تعمیر میں ملک کے اعلی دماغوں نے حصہ ڈالا کیوں کہ اس وقت واپڈا تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم ، دریائے سندھ پر بیراجز اور رابطہ نہروں کے بے شمار کام کرچکا تھا۔ حب ڈیم کو بھی ظاہر ہے کہ اس وقت کے انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ کے مطابق ہی ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس کا اسپل اس کے کیچمنٹ سے آنے والے پانی کے لحاظ سے ڈیزائن کیا گیا جو آج 35 سال بعد بھی صحیح کام کرہا ہے۔اس طرح کے بڑے ڈیم کے مختلف حصوں پر تعمیر کے دوران ہی مختلف قسم کے آلات نصب کر دیے جاتے ہیں جو کہ ڈیم کی پوری زندگی کے دوران اس کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ، ڈیم کی بنیادوں سے پانی کا رساو ، کسی زلزلے کی صورت میں ڈیم میں بننے کریک یا دراڑوں کے حوالے سے مسلسل ریڈنگ لے رہے ہوتے ہیں۔کراچی کے علاقے بنارس کے پاس واپڈا کا حب ڈیم کا پورا پراجیکٹ ڈائریکٹریٹ بنا ہوا ہے اور ڈیم کے اوپر بھی واپڈا کا عملہ ایک ایس ڈی او کی نگرانی میں چوبیس گھنٹے تعینات ہوتا ہے جو سارا سال نہ صرف ان آلات کی ریڈنگ لیتا ہے اور ڈیٹا واپڈا کو بجھواتا ہے تاکہ ڈیم کی صحت کا ساتھ ساتھ پتہ چلتا رہے۔
واپڈا کا ٹیکنیکل اور واچ اینڈ وارڈ کا عملہ ہر وقت ڈیم پر گھوم پھر کر اس کی ظاہری حالت کو بھی دیکھتا رہتا ہے اور کسی بھی نظر آنے والے نقص کو بروقت ٹھیک کرتا رہتا ہے۔پھر سپر چیک کے لئے واپڈا کے اندر ایک ڈیم سیفٹی آرگنائزیشن قائم ہے جس کے سپیشلسٹ ہر چار پانچ سال بعد ان ڈیموں کا معائنہ کرتے رہتے ہیں اور کسی بھی نقص کی صورت میں فوری سفارشا مرتب کرتے ہیں تاکہ ڈیم محفوظ طریقے سے کام کرتے رہیں۔
اس وقت واپڈا کے حکام کو میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں کا اپنے ڈیٹا کی روشنی میں ایک تسلی بخش جواب دینا چاہئے تاکہ خوف و ہر اس ختم ہو۔
(انجنئیر ظفر اقبال وٹو)