کراچی (رپورٹ-اسلم شاہ)ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی(MDA)بطور ادارہ پر کراچی سسٹم ہے جس کی سرپرستی مبینہ طور پر زرداری ہاوس کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں لوٹ مار اور کرپشن کا گھناونا کاروبار کھلے عام جاری ہے۔ایک طر ف زمینوں پر قبضہ، گاوں گوٹھ کے نام پر الاٹ شدہ رہائشی، تجارتی،رفاہی پلاٹوں کے 1200 ارب روپے کی زمینوں کی بندر بانٹ کردی گئی ہے۔نہ کوئی تحقیقات، نہ کمیٹی کا قیام، نہ کسی افسر یا عملے کے خلاف کاروائی، نہ قابضین کے خلاف اب تک کاروائی،اور نہ تو زمین سے محروم الاٹیز کی زمین واگزار کرائی گئی ہے۔ دوسر ی جانب ورک چارجز کے نام پر 714 سے ذائد ملازمین کے نام پر لوٹ ماری جاری ہے، 25000 روپے کے حساب سے ماہانہ ایک کروڑ 78لاکھ 50ہزار روپے یعنی 21 کروڑ 42لاکھ روپے شاہانہ اخراجات کے نام پر لوٹ مار جاری ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ادارے میں ورک چارجز کے نام پر ادارہ کے 20 سے ذائد افسران کے کئی رشتہ دار، گھرکے ملازمین ڈائیور،مالی، خانساماں،چوکیدار،ماسی،اور دیگر ملازمین بھی سرکاری ملازم بن گئے۔ڈائریکٹر جنرل حاجی احمد، سیکریٹری ارشد خان، ڈائریکٹر فنانس ناصر خان، ڈائریکٹر لیگل عرفان بیگ، ڈائریکٹر پلاننگ لیئق احمد، صوبائی وزراء ارکان اسمبلی، محکمہ بلدیات و ٹاون پلاننگ، فنانس، دیگر بیورو کرویٹس کی سفارش پر ایک سے ذائد ملازمین رکھے گئے ہیں۔حاجی احمد، عرفان بیگ، ناصر خان، ارشد خان، لیئق احمد کے نام پر چار سے پانچ درجن ملازمین ورک چارج پر تعیناتی کی تصدیق کی گئی ہے۔ایک طرف ملازمین کی بڑی تعداد میں تقرری سے ادارے پر شدید مالیاتی بوجھ پڑا ہے،دوسری جانب ان ملازمین کی بڑی تعداد اپنے فرائض کی ادا ئیگی نہیں کر رہے۔ان کے فنڈز پر ڈاکا بھی یہی افسران ڈال رہے ہیں اور ان کی رقم انہی کی جیبوں میں جا رہی ہے۔سب سے زیادہ ورک چارجز پر عرفان بیگ، ارشد خان، ناصر خان کے ساتھ حاجی احمد ڈائریکٹر جنرل بھی لوٹ مار میں پوری طرح شامل ہیں۔ڈائریکٹر جنرل حاجی احمد کے گھر میں موجود تمام کام کرنے والے ملازمین ادارے کے ورک چارجز پر کام کر رہے ہیں جس کی ادارے کے ایک اہم افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کر دی ہے۔اس بارے میں ڈائریکٹر جنرل حاجی احمد نے نمائندہ کو بتایا ہے کہ ورک چارجز پر بھرتی ہونے والے کی تعداد بہت زیادہ ہے اور زیادہ تر سیاسی طور پر سفارشی ہیں۔ اس بارے میں صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ورک چارجز ملازمین کو مراحلے وار نکالنے کا عمل شروع کریں گے اور ادارہ میں مستقل ملازمین کو رکھنے اور بھرتی کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے اس کا عمل شروع ہوچکا ہے جلد ورک چارجز کی جگہ مستقل طور پرملازمین کی بھرتی ہو گی۔واضح رہے کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر کراچی سسٹم(کراچی سسٹم کراچی میں لوٹ مار اور کرپشن کا بدترین سسٹم ہے جس کی تصدیق سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دور میں چیف سیکریٹری سندھ اور سندھ کے افسران کے ساتھ میٹنگ کے بعد کی تھی) کے افسران کا مکمل قبضہ ہوچکا ہے۔گریڈ 19کے آفیسر حاجی احمد او پی ایس ہونے کے باوجود ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے غیر قانونی طور پر کراچی سسٹم میں تمام امور کی نگرانی کر رہے ہیں ان کے ہمراہ کراچی میں موجود کراچی سسٹم کی بااثر شخصیات روزانہ کی بنیاد پر کمیشن،کک بیک اور لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔اربوں روپے مالیت کی زمینوں پر قبضہ،نئے گوٹھ کی غیر قانونی تشکیل دینے کے ساتھ ہزاروں الاٹمنٹ شدہ رہائشی پلاٹوں، تجارتی اور رفاہی پلاٹس پر لینڈ مافیا کو قبضہ دلانے کا کام ایک منصوبے کے تحت جاری ہے،جبکہ ڈائریکٹر لیگل افیئر محمد عرفان بیگ، ڈائریکٹر پلاننگ لئیق احمد سمیت تین افسران لینڈ گریبرنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔دو افسران کے خلاف لینڈ گریبرنگ کا مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔وہ MDA کی زمینوں پر قبضہ سمیت دیگر سنگین جرائم میں براہ راست شریک ہیں لیکن چمک کے آگے تھانے والوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو گئی ہیں اس لیئے تھانہ کسی قسم کی کاروائی سے قاصر ہے۔مصدقہ ذرائع کے مطابق MDA کے اس گھنوانے کاروبار میں براہ راست محمد علی شیخ کے ساتھ صحافیوں کے نام نہاد لیڈر(مبینہ طور پر جی ایم جمالی کا نام بھی سرپرستوں میں آرہا ہے)، علی حسن بروہی کے ساتھ علی حسن زرداری کا نام بھی شامل ہے۔تیسر ٹاون اور نیو ملیر اسکیم کے پارکس، کھیل کے میدان، مساجد، امام بارگاہ، گرین بیلٹ،ندی نالے، اسکول،کالجز، تعلیمی ادارے، ہسپتال،صحت کے مراکز، کیمونٹی سینٹر، رفاہی، فلاحی،سرکاری و نجی اداروں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے الاٹ شدہ پلاٹوں پر سرکاری سرپرستی میں ایک منصوبہ کے تحت قبضہ کیا جا رہا ہے جس سے پلاٹ الاٹ ہونے کے باوجود الاٹیز میں خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ایک ماہ قبل آپریشن کے دوران عباس گوٹھ کا نوجوان گولی لگنے سے جان بحق ہو گیا تھا جس کو جواز بنا کر آپریشن بند کر دیا گیا تھا۔جس کا مقدمہ ڈائریکٹر لینڈ، انٹی انکروچمنت و اسٹیٹ محمد عرفان بیگ اور انٹی انکروچمنٹ پولیس کے ایس ایچ او فضیان کریم کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔اس کی ایف آئی آر نمبر 159/22 گلشن معمار ضلع غربی میں 16مارچ 2022ء کی رات تین بجے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق افسران پر 302/34 ت ب کا فوجداری دفعات میں مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔تاہم کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔دونوں افسران نے قبل از وقت ضمانت کر رکھی تھی جسے بروز بدھ سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت خارج کر کے دونوں افسران کی گرفتاری کی ہدایت کردی ہے۔بعد ازاں عرفان بیگ اور فضیان کریم چمک کے زور پر پولیس کی ملی بھگت سے عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور بعد میں بغیر کسی تحقیقات کے ملازمت پر بحال بھی ہو گئے یہ ہوتی ہے چمک کی طاقت جو MDA میں ہر روز دیکھی جا سکتی ہے۔واضح رہے کہ ملیر ڈیو لپمنٹ اتھارٹی تیسر ٹاون اسکیم 45 کی اراضی بہت قیمتی اراضی ہے اور MDA نے رہائشی، تجارتی بنیاد پر نیلام عام کے ذریعہ عام لوگو ں کو الاٹ کیا ہوا ہے۔تیسر ٹاون(80,120,240,400 مربع گز رہائشی و تجارتی) کے متعلق مزید مختص شدہ افراد اپنی قسطوں میں بقایہ جات کی ادائیگی کررہے ہیں۔تیسر ٹاون ایک لحاظ سے بہت اہم منصوبہ ہے جس کی راہداری سی پیک کا حصہ ہے لینڈ مافیا نے نہ صرف MDA بلکہ تیسر ٹاون سمیت کراچی کی تمام اہم گزرگاہوں کو ہدف بنایا ہوا ہے بلکہ عالمی منصوبہ سی پیک کو بھی ثبوتاژ کرنے کی کوشش سمجھا جارہا ہے جس میں ایم ڈی اے کے افسران لینڈ مافیا کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔تاہم سندھ کی حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا یہ عالم ہے کمیٹی کے ارکان خود بھی مشکوک سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ویسے بھی سندھ حکومت کی کرپشن دنیا بھر میں اظہر من الشمس ہے۔