لاہور( بیورورپورٹ )
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ پہلے ہی بے توقیر ہے،الیکشن کمیشن کے بعد اب عدلیہ کو بھی متنازعہ بنادیا گیا۔ ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں بچاجس پر عوام اعتبار کرنے کو تیار ہوں۔ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے نام لے کر انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سیاسی جھگڑے عدالتوں کونہیں آخرکار سیاست دانوں کو ہی حل کرنا پڑیں گے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ میں اس حد تک نہ جائیں کہ خدانخواستہ ملک کا بڑا نقصان ہو جائے۔ بحران کے خاتمہ کے لیے پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کریں، سب متفق ہیں تو جماعت اسلامی ملک اور عوام کی خاطر میزبانی کے لیے تیار ہے۔ سب عدالتوں سے مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش میں ہیں،فیصلہ حق میں آئے تو قبول ورنہ تنقید سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن گئی۔ حکمرانوں نے مفادات کی لڑائی گلی کوچوں میں پھیلا دی۔ خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ حالات بدترین صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔ خدارا ذاتی لڑائیاں چھوڑیں اور آئین پاکستان پر اتفاق کریں۔ اس وقت تقسیم کی بجائے مکالمہ کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو آئین کے آگے سرنڈر کرنا ہو گا۔ پاکستان اللہ کی امانت اور 22کروڑ عوام کا ہے۔ لوگوں کے گھر سیلاب میں بہہ رہے ہیں، مہنگائی، بدامنی، لوڈشیڈنگ نے چترال سے کراچی تک عوام کا سکون چھین لیا۔ ظلم جاری رہا تو عوام حکمرانوں کے محلات کا رخ کریں گے اور انھیں بھاگنے بھی نہیں دیں گے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے ہمراہ منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
سراج الحق نے کہا کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
تینوں جماعتوں نے اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھا اور حکومت ملنے پر ملک اور قوم کی کوئی خبرگیری نہ لی۔ پی ٹی آئی نے پونے چار سال پارلیمنٹ میں ایک بھی ایسا قانون نہیں بنایا جو عوام کے لیے ہو اور ایک دفعہ بھی اپوزیشن سے مذاکرات نہیں کیے۔ اب جب سے پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت بنی ہے تو پی ٹی آئی کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ تینوں جماعتیں ان قوانین اور پالیسیوں پر متفق نظر آتی ہیں جو استعمار کی جانب سے ملک پر مسلط کی جائیں ہاں البتہ آپسی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو چور چور کہا جاتا ہے۔ معاشرہ میں زہریلی تقسیم حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس ساری لڑائی میں سو فیصد نقصان عوام کا ہو رہا ہے جنھیں مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی سیاست دانوں کی لڑائی سے ملک تقسیم ہو گیا اور بعد میں ایسی ہی لڑائیوں کی وجہ سے مشرف کا مارشل لا لگا۔ اب جب کہ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں نے تباہی مچا دی، کے پی میں بدامنی جاری اور ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ سیاسی بحرانوں کی زد میں ہے، تینوں بڑی جماعتیں حالات سے بے خبر ماضی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔
امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی نے اس سارے کھیل میں پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا نہ پی ٹی آئی کی حمایت کی۔ ہمارا موقف اصولی ہے، ہم ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں۔ ہم گلی محلوں میں اپنے پیغام ”کرپشن فری اسلامی پاکستان“ کے ساتھ موجود ہیں۔ تینوں حکمران جماعتوں کی ناکامی کے بعد اب جماعت اسلامی عوام کے پاس واحد آپشن کے طور پر موجود ہے۔ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں امیر جماعت نے کہا کہ موجودہ حالات میں الیکشن ہوتے ہیں، تو انھیں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ انتخابات سے قبل الیکشن اصلاحات ہونی چاہییں اور سیاسی جماعتوں کو اس مقصد کے لیے آپس میں مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی متناسب نمائندگی کے اصولوں کے تحت الیکشن چاہتی ہے تاکہ ملک کو الیکٹیبلز کی سیاست سے نجات ملے۔
امیر جماعت نے ملک میں بارشوں سے ہونے والی اموات اور دیگر نقصانات پر افسوس کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لوگوں کے نقصانات کے ازالہ کے لیے ان کی مالی مدد کو یقینی بنائے۔