کراچی(رپورٹ:اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نگرانی میں ہائنڈرنٹس سے اربوں روپے کی لوٹ مار جاری ہے۔بلاول عرف بنٹی پانی چوروں کا نگران ہے۔قومی احتساب بیورو(نیب)،انٹی کرپشن(جو خود سندھ میں کرپشن کا سب سے بڑا حصہ دار ہے) کے ساتھ دیگر تحقیقاتی ادارے اپنا حصہ وصول کرکے اپنی آنکھیں،کان، زبان سب کچھ بند کر کے بیٹھے ہیں اور کرپشن پر مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے،اس ضمن میں کراچی میں چلنے والے 6 سرکاری ہائیڈرنٹس سے 4 کروڑ روپے پانی یومیہ یعنی ایک ارب 20 کروڑ روپے مالیت کا پانی ماہانہ چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہائیڈرنٹس سے یومیہ 10کروڑ گیلن پانی کی فراہمی جاری ہے،یعنی 1000،2000،3600، 5000، 10,000اور 12,000گیلن والے 30000 ٹرپ (ٹینکرز)فراہم کرنے کا سرکاری ریکارڈز ملے ہیں۔ہائنڈرنٹس میں میٹر سے فراہم ہونے والے کنکشن سے پانی کی فراہمی اور آمدن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور اجازت کے بغیر غیر قانونی کنکشن کی تعداد بڑھ گئی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ہائیڈرنٹس سیل کے نگران رحمت اللہ مہر 12 اگست 2022ء سے ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کی وجہ انتظامیہ نے اچانک ایک اور مہربانی کرتے ہوئے میٹر ڈویثرن کا اضافی عہدہ بھی دیدیا گیا اور ریٹائرڈ ہونے سے قبل ہائنڈرنٹس سے جتنا نچوڑ سکتے ہیں لوٹ مار کر سکتے ہیں کر لیں،جبکہ میٹر ڈویثرن کے سپریٹنڈنٹ انجینئر طارق لطیف اور ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی نے پہلے ہی میٹر کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ لوٹ مار نے کراچی میں پانی مافیا کا ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔سرکاری ریکارڈز اور مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ NLC اور 6 ہائیڈرنٹس کی ماہانہ آمدنی 14کروڑ سے کم ہوکر چار کروڑ روپے رہ گئہ ہے۔ماہ مئی،جون اور جولائی کے دوران مزید کمی ہونے کی توقع ہے جبکہ ٹینکر ز کے نرخ میں 39 فیصد،بجلی کے بلوں میں 33 فیصد اضافہ اور ہائیڈرنٹس کے اوقات دس گھنٹے سے بڑھا کر 24 گھنٹے کر دیئے گئے ہیں۔یومیہ پانی کی فراہمی میں بھی اضافہ ہوچکا ہے تاہم کمپیوٹرائز میٹرز سے ٹیکس کی آمدن میں کمی پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں،جس پر تمام حلقے ہائیڈرنٹس، میٹر ڈویژن، ٹیکس ریونیو کے ساتھ دیگر محکموں نے بھی مکمل طور پر پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے،جبکہ تمام مصدقہ ذرائع ہائیڈرنٹس کے ذریعے غیر قانونی کنکشن سے پانی کی فراہمی جاری ہونے کی تصدیق کررہے ہیں۔
دوسری جانب کمپیوٹرائز میٹر ز بند ہونے سے ایورج بلنگ کرنے کی رپورٹ پہلے ہی شائع ہوچکی ہے۔کئی سالوں سے میٹرز ڈویژن میں سپریٹنڈنٹ انجینئر طارق لطیف اور ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی سمیت ان کے حواری افسران ان منافع بخش پوسٹوں پر براجمان ہیں۔متعلقہ ذرائع الزام لگاتے ہیں کہ اس سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے اگر ان کی جائیدادوں،اثاثوں کی تحقیقات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اب اس کی تعداد آمدن سے کہیں زیادہ ہے۔تاہم انہوں نے کبھی تحقیقاتی اداروں کا سامنا نہیں کیا کیونکہ ان کی مالی چمک نے تحقیقاتی اداروں کا بھی مونہہ بند کر دیا ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ چھ ہائیڈرنٹس کی نیلامی کے بعد ماہ جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کی بلڈنگ صرف ساڑھے چار کروڑ آنے پر تمام حلقوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے کیونکہ ریونیو وصول کرنے والے اور تحقیقات کرنے والے سب اس گورکھ دھندے میں شامل ہیں جبکہ ٹھیکے داروں کو بلک واٹر سے پانی کی فراہمی کا سلسلہ پوری طرح جاری ہے۔تمام ہائیڈرنٹس کے اوقات میں بھی نئے سال سے تبدیلی کر دی گئی ہے۔اس سے قبل تمام ہائیڈرنٹس کے اوقات 10 تا 12 گھنٹے تک تھے لیکن اب تمام ہائیڈرنٹس تبدیل شدہ اوقات کے مطابق 24 گھنٹے چل رہے ہیں۔بجلی کے بلوں میں بھی 33 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ماہ جنوری 2022 سے ہائیڈرنٹس سے چلنے والے ٹینکرز کے نرخ میں تمام علاقوں کی فیس اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 39 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے،لیکن ہاینڈرنٹس کی آمدن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ پانی کی چوری، بجلی کی چوری،غیر قانونی آمدنی میں اضافہ،رشوت،کمیشن اور کک بیک میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے واٹر بورڈ کی آمدنی گھٹ گئی ہے۔اس بارے میں ہائیڈرنٹس سیل کے انچارج نعمت اللہ مہر کا کہنا ہے کہ سردیوں میں پانی کی ضرورت کم ہو جاتی ہے اس لیئے ہائیڈرنٹس سے پانی کی فراہمی میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہائیڈرنٹس سے آمدنی میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن یہ گرمیوں میں بڑھ جائے گی۔مصدقہ ذرائع کے مطابق ہائیڈرنٹس سے رشوت،کمیشن،کک بیک وصول کرنے والا نگران وزیراعلیٰ سندھ و سابق چیف سیکریٹر ی فضل الرحمان کا داماد بلال عرف بنٹی اس سارے کھیل میں براہ راست ملوث ہے۔وہ شیرپاؤ کرش پلانٹ منگھوپیر کے ہائیڈرنٹ میں حصہ دار بھی ہے۔اس نے شیرپاؤ ہائیڈرنٹس پر بھی غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔اسے ہائیڈرنٹس کے منافع بخش کاروبار میں سیاسی،سرکاری افسران و دیگر بااثر شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ ہائیڈرنٹس مافیا سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کراچی میں سرکاری چھ ہائیڈرنٹس کے علاوہ نیشنل لاجسٹک سیل،ڈپٹی کمشنر غربی کی نگرانی میں بلدیہ ٹاون اور 96 غیر قانونی ہائیڈرنٹس بھی شہر میں اس گھناونے کاروبار میں ملوث ہیں اسی لیئے پانی کی خرید و فروخت بھی کھلے عام جاری ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ہائیڈرنٹس کنٹریکٹرز کے منافع بخش کاروبار میں سیاسی،سرکاری افسران دیگر بااثر شخصیات کی سرپرستی کی وجہ سے سپریم کورٹ کی سخت پابندی کے باوجود بھی کراچی کے ضلع غربی میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کا کاروبار عروج پر ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ شہر میں پانی کی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ادارہ بن چکا ہے۔شہری گھروں میں میں پانی کیلیئے ترس رہے ہیں،جبکہ ناغے کا نظام رائج کر کے پانی کو ٹینکرز کے ذریعے کھلے عام فروخت کیا جا رہا ہے۔